تونسہ بیراج

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 24, 2018 | 06:17 صبح

تونسہ بیراج بنیادی طور پر آبپاشی کے لیے بنایا گیا ہے بیراج کی اوپر کی جانب پانچ عدد مٹی کے بند ہوئے ہیںان بندوں کی وجہ سے 6,576ایکڑ رقبے میں پانی کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے جس میں مختلف اقسام کی آبی حیات آباد ہوچکی ہے صرف 1987ءکے موسم سرما میں تونسہ بیراج پر24,000مختلف اقسام کے پرندے شمار کیے گئے تھے۔
دریاوں پر بیراج بننے کے نتیجے میں قائم ہونے والے سب ہی آبی ذخائر کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں ان میں پانی کی گہرائی کا دارو مدار دریا میں پانی کی مقدار پر ہوتا ہے دریائے سندھ جب کنارے کنارے بہتا ہ

ے تو تونسہ کے آبی ذخیرے میں 5مٹیر تک پانی ہوتا ہے موسم سرما میں یہ پانی ایک میٹر سے بھی کم ہو جاتا ہے۔
تونسہ بیراج کے اردگرد کی زمین زرخیز ہے اور یہاں کپاس، گندم اور گنا وغیرہ کاشت ہوتا ہے دریائے سندھ کے کنارے خود رو جھاڑیوں میں پلچھی کی تعداد زیادہ ہے اگرچہ زیر کاشت رقبے پر درختوں کی نئی نسلیں متعارف ہوچکی ہیں۔


رامسر آب گاہ کا درجہ حاصل ہونے کے بعد تونسہ بیراج آبی حیات پر تحقیق کا اہم مراکز بن چکا ہے 1983ءسے لے کر اب تک باقاعدگی سے پرندوں کے شمار کے علاوہ ”ڈولفن منصوبے“ پر محکمہ ماہی پروری پنجاب اور زویوجیکل سروے کے مشترکہ کام قابل قدر ہے۔ ہجرت کرکے آنے والے بگلوں کے لیے تحقیقی سینٹر کے تونسہ بیراج پر قیام کی تجویز بھی زیر غور ہے اور محکمہ جنگلی حیات پنجاب میں جنگلی حیات کے لیے یہاں مصنوعی گھونسلے بنانے پر بھی غور ہو رہا ہے تاکہ مہمان آبی پرندوں کو زیادہ محفوظ اور پرسکون ماحول میسر آسکے اور ان کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔


پنجاب میں واقع رسول قادر آباد، چشمہ بیراج، اور السلام ہیڈ ورکس کی طرح تونسہ بیراج رامسر آب گاہ میںبھی بڑے پیمانے پر ماہی پروری کا آغاز ہوچکا ہے جس سے ہر سال کروڑوں روپے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ چولستانی ہرن  ہوگ ڈیئر ابھی تک اس علاقے میں موجود ہے۔ تونسہ بیراج کا رامسر سائٹ نمبر 817ہے۔