پاک فوج کا وہ شہیدکرنل جو پہاڑوں پر مسجدیں بنانے کا شوقین تھا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 31, 2018 | 07:47 صبح

لاہور(مہر ماہ رپورٹ): اپر دیر میں دہشت گردوں کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ پھٹنے سے پاک فوج کے جنرل ثنااللہ نیازی کے ساتھ کرنل توصیف اور دیگر جانبازوں نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا تھا ۔کرنل توصیف کے بھائی کرنل عقیل احمد نے اپنے شہید بھائی کی شخصیت پر ایک دلگداز مضمون لکھا تھا جو آپ کی نذر کیا جارہا ہے۔۔۔۔
15ستمبر 2013 بروز اتوار میں معمول کے مطابق ویک اینڈ گزار رہا تھا۔ ظہر کی نماز مسجد میں پڑھنے کے بعد گھر واپس آیاہی تھا کہ موبائل پر ایک دوست کی کال آئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں ٹی وی

دیکھ رہا ہوں۔ میں نے نفی میں جواب دیا۔بات سن کر میں ٹیلی ویژن کی طرف لپکا۔آن کرنے پر بریکنگ نیوز نے جیسے میر ے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی‘ سانس ٹھہر سی گئی‘ کہ اپنے پیارے چھوٹے بھائی کی تصویر کے ساتھ اس کی شہادت کی خبر ہر نیوز چینل پر چل رہی تھی۔ کچھ دیر تک سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے بچھڑنے پر روؤں یا شہید کا بھائی ہونے کے ناطے فخر کروں؟
اس وقت میں ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار تھا کہ فوراً والدین کا خیال آیا اور میں اْن کی طرف روانہ ہوگیا۔ میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ ٹی وی پر اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر دیکھ چکے تھے۔ ایک اسلامی گھرانہ ہونے کے ناطے شہادت پر یقین تو سو فیصد تھا اور ہے مگر بھائی کی جدائی کے تصورنے اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ اس اٹل حقیقت کو قبول کرنے کی طاقت جیسے ختم ہو گئی۔ 
میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں چنانچہ اپنے آپ کو سنبھالا اور والدین کو تسلی دی۔ اس دوران ایک ہی بات لب پر تھی ’’وہ زندہ ہے وہ زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہید زندہ ہے۔‘‘
سی ایم ایچ پہنچ کر بھائی کا جسد خاکی لینے کے بعد ایمبولینس میں اس کے سرہانے بیٹھ گیا اور اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ ایک شہید کا چہرہ! وہ سکون کی نیند سویا ہوا تھا اوراْس کے لبوں پر جو مسکراہٹ تھی وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس مسکراہٹ کو دوسرے لوگوں نے بھی محسوس کیا۔ بھائی کی شہادت نے قرآن اور حدیث میں ایک شہید کے بارے میں بیان کی تمام جہتوں کو میرے سامنے دوبارہ کھول دیا۔ ہر قدم پر خدا وندکریم نے دکھایا کہ شہید کا مرتبہ کتنا عظیم ہے۔ ایک شخص جسے اللہ شہادت کے رتبے پر فائز کرتا ہے وہ خدا کو کتنا پیارا ہوتا ہے۔ اس کے جنازے میں تمام فورسز کے سربراہان کے علاوہ ہر مکتبہ فکر کے بے شمار لوگوں نے شرکت کی۔ 
ہیڈکوارٹرز 10کور کے گراؤنڈ میں تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ تھے۔ پہلی نماز جنازہ گھر کے قریب پڑھی گئی دوسری نماز جنازہ بھی کچھ کم بڑی نہ تھی۔ یہ بات خدا نے مجھ پر عیاں کی کہ جس شخص کو اللہ اتنی عزت دیتا ہے اس کی دنیا میں اس کے بندے بھی اتنی ہی عزت دیتے ہیں۔ اس سے پہلے قبر دیکھ کر مجھ پر خوف کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ مگر جب بھائی کی قبر کے پاس جا کر کھڑا ہوا تو میرا احساس مختلف تھا۔ اتنی کشادہ اور خوبصورت قبر کہ بیان نہیں کر سکتا اور کیوں نہ ہو وہ زمین بھی رشک کرتی ہے جس میں شہید کو اْتارا جاتا ہے۔
وہ کتنا عظیم بھائی تھا کہ جس کی شہادت کے بعد اور تدفین سے پہلے حرم میں اس کے ایصال ثواب کے لئے دعائیں اور طواف شروع ہو گئے۔چند قریبی رشتہ دار (خالہ‘ کزن اور دیگر) اس وقت مکہ مکرمہ میں حج کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ اسے اللہ کے سپرد کرنے کے بعد جب رات گئے چند لمحوں کے لئے آنکھ لگی تو توصیف کو پہلی بار چمکتے ہوئے احرام میں حرمِ پاک میں دیکھا۔
میٹرک کے بعد بھائی نے آرمی جوائن کر لی تھی چنانچہ اس کا زیادہ وقت اپنے حلقہ احباب میں گزرا۔ صرف چھٹی پر ہی ملاقات ہوتی تھی۔ اس کی زندگی کے کئی ایسے پہلو میرے سامنے آئے جن کے بارے میں‘ میں بہت کم یا بالکل ہی نہیں جانتا تھا۔ اس کا روم میٹ اور کورس میٹ مسجد کے باہر میرے ساتھ اس عظیم شخص کے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ توصیف کے بارے میں ایک ایسی بات بتاؤں جس کا آپ کو بھی نہیں معلوم ہو گا۔ ’’وہ ہر نماز کے بعد شہادت کے لئے دعا کرتا تھا۔‘‘


میرا بھائی شہادت سے کچھ پہلے ڈسٹرکٹ دِیر جو کہ پاک افغان سرحد پر واقع ہے‘ سے چند دن کی چھٹی آیا ہوا تھا اور والدہ کے ساتھ گھر میں بیٹھا بات چیت کر تے ہوئے کہنے لگا: ’’امی جان اللہ تعالیٰ کا مجھ پر کتنا فضل ہے۔ اچھا پڑھنے لکھنے کے بعد ایک بہترین پروفیشن کو جوائن کیا۔ آج اللہ کے فضل سے یونٹ کی کمانڈ کر رہا ہوں۔ اللہ نے خوب صورت اور محبت کرنے والی بیوی دی اور فرمانبردار اولاد سے نوازا‘ اللہ کی بہت کرم نوازی ہے اور اس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ بس دو خواہشیں رہ گئی ہیں جسے اللہ پورا فرما دیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ بیٹی عطا کر دے (اس سے پہلے بھائی کے تین بیٹے ہیں) اور دوسری اللہ شہادت کی موت دے۔‘‘
والدہ نے جواب دیا ’’ بیٹی کے لئے میں ضرور دعا کروں گی مگر ایک ماں کے لئے دوسری دعا کرنا مشکل ہے‘‘
قبولیت کی گھڑی تھی۔ اللہ نے کچھ عرصے میں بیٹی عطاکی اور اس کے بعد شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا (سبحان اللہ)۔
بھائی کی یونٹ 33بلوچ رجمنٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ (2IC) نے کچھ بہترین یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جب آخری بار وہ یونٹ سے مالاتر پوسٹ پر جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی)کو رسیو کرنے نکلے تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ہلکے سے مسکرائے اور کہا۔

’’Hold the fort for 21 c

۔‘‘۔ وہ کئی بار یونٹ سے باہر کسی نہ کسی کام سے جاتے رہے مگر یہ الفاظ انہوں نے پہلی اور آخری بار استعمال کئے۔


میرے شہید بھائی نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی۔ یونٹ کی کمانڈ سنبھالنے سے پہلے راولپنڈی میں پوسٹنگ تھی۔ یہاں پر اس نے فیصلہ کیا کہ اپنے دونوں بڑے بیٹوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کا حافظ بھی بناؤں۔ یہ تو اب سمجھ آتا ہے کہ اس کا ہر قدم اسے اللہ کے نزدیک کر رہا تھا اور اس کی ہر کوشش اس کی خوشنودی حاصل کرنا تھی۔ آج ماشاء اللہ حمزہ احمد نے مکمل قرآن حفظ کر لیا ہے اور دوبارہ چھٹی جماعت میں داخلہ لے لیا ہے۔ حذیفہ احمد (بڑا بیٹا) کے اب صرف چار پارے حفظ کے رہ گئے ہیں اور یوں وہ اپنے پیچھے صدقہ جاریہ کا انتظام کر گیا۔ خدیجہ (بیٹی ) تو وہ محبت کبھی محسوس نہیں کر سکے گی کہ جس محبت سے اسے توصیف نے اللہ سے مانگا تھا۔
کرنل توصیف اپر دِیر کے مقامی لوگوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ دوردراز علاقہ تھا جہاں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ کرنل توصیف نے اپنی یونٹ کے ڈاکٹر کو خصوصی ہدایات دی ہوئی تھیں کہ یونٹ میں ہمیشہ اضافی دوائیں موجود ہونی چاہئیں وہ میڈیکل کیمپس کا بھی اہتمام کرتے تھے۔جن میں مقامی لوگوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ گردونواح کے علاقے میں لوگ کرنل توصیف کو ’’میرا کرنل‘‘ کے نام سے پہچانتے تھے۔ ایک دفعہ وہ بٹالین ہیڈکوارٹرز کی طرف آ رہے تھے جب راستے میں انہیں ایک عمررسیدہ شخص سڑک کے کنارے نظر آیا۔ اپنی گاڑی روکی اور پوچھا’’ بابا جی آپ کا کیا حال ہے اْمید ہے ٹھیک ہوں گے‘‘


بابا جی نے کہا ’’ نہیں بیٹا تھوڑا بیمار ہوں ‘‘کرنل توصیف اسے بٹالین ہیڈکوارٹرز لے آئے اور ڈاکٹر سے مکمل چیک اپ کروا کر میڈیسن دیں۔
33بلوچ رجمنٹ کے نئے کمانڈنگ آفیسر جب کمانڈ سنبھالنے کے بعد اپنے 2 آئی سی کے ساتھ اگلی پوسٹوں کا دورہ کرنے نکلے تو راستے میں ایک بزرگ نے گاڑی روکی‘ فرنٹ سیٹ پرکسی اور شخص کو دیکھ کر پوچھا: ’’میرا کرنل کہاں ہے؟‘‘ 
2آئی سی گاڑی سے اترے اور بزرگ کو بتایا کہ کرنل توصیف شہید ہو گئے ہیں تو بزرگ نے کہا۔ ’’میرا سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘ بعد میں معلوم ہوا کہ کرنل توصیف شہید اپنے طور پر اس بزرگ کی مختلف طریقوں سے مدد کیا کرتے تھے۔ 
کرنل توصیف شہید انتہائی ایماندار اور دیانتدار انسان تھے۔ باقاعدگی سے پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ ہر جوان کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتے انہوں نے یونٹ کے خطیب صاحب کو حکم دیا کہ یونٹ کے ہر جوان کو نماز (ترجمہ کے ساتھ) چھہ کلمے‘ نماز جنازہ اور قرآن کی آخری دس سورتیں زبانی یاد ہونی چاہئیں۔ زیادہ سے زیادہ مسجدیں تعمیر کرنا ان کی ہمیشہ ترجیح رہی۔ بٹالین ہیڈکوارٹرز شاہی کوٹ میں خوبصورت مسجد تعمیر کروائی۔ اس کے علاوہ کئی فارورڈ پوسٹوں‘ جن کی اونچائی دس ہزار فٹ سے بلند ہے‘ پر بھی مساجد تعمیر کروائیں۔ ایک دفعہ وہ سِپرکا سر پوسٹ پر تشریف لائے تو مسجد بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ جوانوں نے کہا کہ ایک تو یہاں پانی کی قلت ہے اور دوسرا ڈیوٹی سخت ہونے کی وجہ سے کم فوجی نماز پڑھنے کے لئے آئیں گے۔


کرنل توصیف نے کہا ’’مسجد بنانا شروع کرو پانی بھی مل جائے گا اور نمازی بھی آ جائیں گے‘‘ آج الحمداللہ اس مسجد میں پانچ وقت باقاعدگی سے نماز پڑھی جاتی ہے۔
بھائی کی شہادت کے بعد اپنے کئی رشتہ داروں سے معلوم ہوا کہ کرنل توصیف باقاعدگی سے ٹیلیفون کال کر کے اْن کا حال احوال جانا کرتا تھا۔ خاص طور پر خاندان کی چند بیواؤں سے ہمیشہ فون کر کے ان کی خیریت دریافت کرتا اور مسائل پوچھتا۔ خاندان اور گاؤں والوں کی مددد کرنا اسے اچھا لگتا تھا۔ اس نے کئی لڑکوں کی روزگار حاصل کرنے میں مدد بھی کی جو آج اس کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
ہمارے خاندان کے سب سے بڑی اور بزرگ شخصیت نے ایک دن والدہ سے کہا ’’ کرنل عقیل (راقم) کرنل توصیف نہیں بن سکتا؟‘‘
والدہ نے پوچھا ’’ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں ‘‘
انہوں نے بتایا ’’ کرنل توصیف باقاعدگی سے مجھے فون کر کے میری خیریت دریافت کیا کرتا تھا‘‘ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ میرے شہید بھائی کوخاندان اور اس کی اہمیت کا کتنا احساس اور ادراک تھا۔
بھائی کی شہادت کے بعد میری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا۔ میں نے کچھ وقت لیا کیونکہ دل میں خوف تھا کہ میں اس کی جگہ کیسے لے سکوں گا۔ وہ ایک ذمہ دار خاوند اور شفیق باپ تھا۔ بہرحال ہمت کر کے میں نے توصیف کی فیملی کو ہر ممکن سہولیات بہم پہنچانے سے متعلق کچھ امور نمٹانے شروع کئے۔ اس کوشش کے دوران کئی واقعات پیش آئے‘ جن کا میری زندگی پر گہرا اثر ہے‘ جس آفیسر کو ملا‘ جس آفس میں گیا‘ مجھے احساس ہوا کہ میرا تعارف تبدیل ہو گیا ہے، اب میں اپنے آپ کو شہید کے بڑے بھائی کے ناتے تعارف کروانے میں زیادہ فخر محسوس کرتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہماری فیملی کی شناخت بھی ایک عظیم شہید کے ساتھ منسلک ہو گئی ہے۔ مختلف کاموں کے دوران کئی سینئرآفیسرز نے گائیڈ بھی کیا۔ اس رہنمائی کی روشنی میں، میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی بھابھی کی طرف سے ایجوٹینٹ جنرل (اے جی)کو ایک درخواست لکھوں جس میں ممکنہ مسائل کے حل کی تجاویز دوں۔ یہ تجاویز لے کر میں  اے جی برانچ پہنچ گیا۔ انتظار کے دوران میرا تعارف ایک اور سینئر آفیسر سے کرنل توصیف شہید کے بڑے بھائی کے طور پر کرایا گیا۔ ان سینئر آفیسر نے مجھ سے کرنل توصیف کے بارے میں بات چیت شروع کر دی جو کافی دیر جاری رہی۔ اس دوران انہوں نے مجھے چند اقدامات کے بارے میں بتایا جوپاک فوج توصیف شہید کی فیملی کے لئے کرنے جا رہی تھی۔ میں ان کی باتیں سنتا رہا اور اندر ہی اندر حیران ہوتا رہا کیونکہ پاک فوج نے ہمارے تجاویز شدہ تقریباً تمام اقدامات یا تو شروع کر دیئے تھے یا اْن کے بارے میں پلاننگ کر لی تھی۔ ان کی بات ختم ہونے پر میں نے اپنی تجاویز والا خط واپس جیب میں ڈالا اور اجازت چاہی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ تو  اے جیسے ملنے آئے تھے میں نے جواب دیا ’’ سر مجھ سے پہلے ہی پاک آرمی نے خود کرنل توصیف شہید کے سب کام سنبھال لئے ہیں‘‘
بھائی کی شہادت سے دو تین روز پہلے اس نے مجھے فون کیا اور بہت دیر تک مجھ سے اپنی فیملی کے بارے میں مشورہ کیا۔ وہ ان کے لئے راولپنڈی میں مستقل رہائش کا بندوبست کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ ایک سیٹلڈ زندگی گزار سکیں۔ اس کی بڑی وجہ دونوں بیٹوں کا قرآن پاک حفظ کرنا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ان کی دینی تعلیم میں کوئی حرج نہ ہو۔ مجھ سے کئی اوپشن ڈسکس کئے اور کچھ باتوں کا پتا کرنے کے لئے کہا تاکہ آنے والی چھٹی میں وہ ان کے لئے کوئی مستقل بندوبست کر سکے۔ مجھے اس وقت گمان بھی نہیں تھا کہ وہ یہ تمام ذمہ داریاں میرے لئے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ ہم دونوں بھائیوں میں ایک گہرا رشتہ تھا وہ زندگی کے ہر موڑ پر مشورے کے ساتھ چلتا تھا۔ 
میں نے اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کور آف انجینئرز کو جوائن کیا مگر بھائی نے انفنٹری کو ترجیح دی۔ میں اس سے چھ کورس سینئر تھا مگر میری  ایمپلیومنٹ کچھ ایسی رہی کہ بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم ختم کرنے کے بعد وطن واپسی پر ہم دونوں اکٹھے پروموشن بورڈ میں  کونسیڈر ہوئے۔ وہ مجھ سے مذاق میں کہا کرتا تھا ’’ بھائی میں آپ سے پہلے پروموٹ ہو جاؤں گا اور پھر آپ مجھے سلیوٹ کیا کریں گے‘‘ اس نے شہادت کا ایسا رتبہ حاصل کر لیا کہ نہ صرف وہ ہم سب سے ہر لحاظ سے آگے نکل گیا بلکہ میں کیا اس پوری قوم نے اسے سلیوٹ کیا۔ اس نے اس قوم کے ہر فرد کے دل میں جگہ بنا لی جو دل کی گہرائیوں سے اس کی عظیم قربانی کوخراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
عسکری کالونی میں ہمارا گھر مسجد کے بالکل ساتھ ہے یعنی پہلے گھر کا گیٹ ہے اور پھر چند قدموں پر مسجد ہے۔ توصیف جب بھی پی ایم اے سے ویک اینڈ یا چھٹی پر گھر آیا کرتا تھا تو کالونی کے گیٹ میں داخل ہونے پر اگر نماز کا وقت ہوتا تو گھر آنے کے بجائے پہلے مسجد میں چلا جاتا اور للہ کی بارگاہ میں حاضری دینے کے بعد گھر آتا۔ نماز کے لئے خاص تیاری کرنا اس کا معمول تھا۔ وہ اگر کبھی تیار ہوتے ہوئے لیٹ ہو رہا ہوتا تو والدہ آواز دیتی’’ توصیف اس کنگھی شیشے کو چھوڑو کہ نماز کو دیر ہو رہی ہے‘‘
وہ کہتا ’’ امی اگر کسی سے ویسے ملنے جانا ہو تو ہم کتنا تیار ہوتے ہیں‘ اللہ سے ملنے کے لئے تیار ہو کر نہ جاؤں؟‘‘
بچوں کی اپنے باپ کے ساتھ محبت بہت منفرد ہوتی ہے۔ اگر باپ کبھی ان کی تربیت کے لئے ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہوتا ہے تو وہی باپ اپنے بچوں پر جان چھڑکنے کے لئے بھی ہر لمحہ تیار ہوتا ہے۔ کرنل توصیف کی بھی اپنے بچوں کے ساتھ محبت مثالی تھی۔ لیکن چھوٹے بیٹے عمر کے ساتھ تو گویا اْن کی دوستی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی کوئی بات رد نہیں کرتے تھے۔ جب وہ یونٹ کی کمانڈ سنبھالنے کے لئے اپردِیر پہنچے تو  پی ٹی سی ایل  کا ایک خصوصی نمبر عمر کو لگوا کر دیا۔ عمر صبح سکول جاتے ہوئے اور واپسی پر والد کو ضرور فون کر کے بات کرتا تھا۔ اپنے بابا کی شہادت کے بعد وہ انہیں سب سے زیادہ مس کرتا ہے۔ بابا کے بارے میں بار بار پوچھنے پر اس کو سمجھایا گیا کہ آپ کے ابوتو اب مٹی کے نیچے چلے گئے ہیں تو اس نے بڑے معصومانہ طریقے سے کہا ’’ آپ ان کے پاس ٹیلی فون کیوں نہیں لگوا دیتے تاکہ میں ان سے بات کر سکوں‘‘
ننھا عمر اب بھی اکثر ٹیلی فون کے نمبر ڈائل کرتا ہے کہ اپنے پیارے بابا سے بات کر سکے‘ ان کی آواز سن سکے۔ مگر ٹیلی فون کی دوسری جانب ہمیشہ خاموشی ہوتی ہے‘ ابدی خاموشی۔