خوبرو اندرا گاندھی کے رومانٹک شب و روز

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 22, 2019 | 18:52 شام

انکی خلوتوں کا پردہ چاک کرتے ہیں ان کے ڈرائیورپریم نارائن
بھارت کی سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کی ذاتی زندگی پر کئی طرح کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔اس کے سابق محافظ اور ڈرائیور پریم نارائن نے بھی ” جب اندرا جوان تھی “ کے نام سے ایک تہلکہ خیز کتاب لکھ ڈالی تھی جو بنیادی طور پر انتقامی جذبے سے لکھی گئی اور کسی ناول افسانے کی طرح اس میں اندرا گاندھی کی جنسی زندگی کو بیان کیا گیا تھا۔اس جرم کی پاداش میں پریم نارائن کو جیل میں ڈال دیا گیا جہاں وہ گمنامی کی موت مرگیا

۔پنڈت نہرو نے اس کتاب کی کاپیاں جلا ڈالیں لیکن اس میں سے پھر بھی چند کاپیاں بچ گئی تھیں۔پریم نارائن نے کتاب میں اندرا گاندھی کے جنسی معمولات بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اندرا گاندھی کو جب کوئی مرد نہیں ملتا تھا تو وہ اس کے ساتھ رات گزارنے کی کوشش کرتی تھی۔پریم نارائن نے الزام لگاتے ہوئے لکھا کہ ایک دن وہ اندرا کے پاس گیا تو اس نے کہا ”رات میں آپ کے کمرے میں گئی تو آپ نے مجھ سے بات تک نہیں کی“ اندرا اخبار پر نظریں جمائے کہہ رہی تھی۔ 
”وہ دراصل۔۔۔ دراصل میں ڈر گیا تھا۔ “
اندرا مسکرائی ” کس بات سے “
”صرف اس بات سے محترمہ کہ آپ مالک ہیں اورمیں غلام ایسی باتیں مجھے زیب نہیں دیتیں۔“
”ہوں۔۔۔ کافی سمجھدار ہو۔“
”رات دھیروجی نہیں آئے تھے کیا؟“ میں نے بات کا ر±خ موڑ دیا۔ 
”آج اس سے بھی نپٹ لوں گی۔“
”وہ کیسے۔“‘
”بس دیکھتے جاو¿“(یہ دھیرو جی اندرا کے آکسفورڈ میں کلاس فیلواور نہایت قریبی تھے۔وہ بھولا بھائی ڈیسائی کے بیٹے تھے )
میں اٹھ کر کمرے میں جانے لگا تو اندرا نے کہا ”سات بج رہے ہیں۔ دو گھنٹے بعد تیار ہو کر آجانا “ میں بہت اچھا کہہ کر اپنے کمرے میں آگیا۔ ناشتہ کرتے ہوئے مجھے اندرا کا وہ فقرہ یاد آرہا تھا ”آج اس سے بھی نپٹ لوں گی۔ “
میں نے اپنا کیمرہ نکالا ا±س میں نئی فلم ڈالی اور جا کر کار کے ڈیش بورڈ میں رکھ دیا۔ نو بجنے میں پانچ منٹ پر میں گاڑی تیار کر کے اندرا کا انتظار کرنے لگا۔ تقریباً بیس منٹ کے بعد اندرا آئی اور گاڑی میں بیٹھتے ہی بولی ”آج سب سے پہلے دھیروجی کے ہاں چلنا ہے۔“
رتن چند روڈ پر بھولا بھائی ڈیسائی کا بنگلہ تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دھیروجی اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اندرا کو لے کر دونوں میاں بیوی اند رچلے گئے اور میرے لئے چائے باہر بھجوا دی۔ تقریباً سوا دس بجے جب یہ لوگ پھر باہر نکلے تو تینوں کسی بات پر ہنستے ہوئے آرہے تھے۔ 
اندرا۔”شیام! میں ذرا دھیروجی کو ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔“
شیام : ”کہاں “ ؟ 
اندرا : ”ہمیں ایک فنکشن میں تقریر کرنا ہے۔“
دھیرو: (ہنستے ہوئے بولے) ”ہمیں نہیں صرف آپ کو۔ میں تو صرف تقریریں سننے کا کام کرتا ہوں“ 
اندرا اور شیام دونوں مسکرا دیں۔ 
شیام” کب تک واپس آئیے گا“
دھیرو” یہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے جب اجازت دیں گی چلا آو¿ں گا“
اندرا” کیوں آپ اداس تو نہیں ہو جائیں گی“ شیام شرما کر ساڑھی کا پلو منہ میں نوچنے لگی۔ 
اندرا”میرے خیال میں دوپہر سے پہلے ہی واپس آجائیں گے“ 
شیام” اچھی بات ہے“ 
اندرا اور دھیرو جی گاڑی میں بیٹھ گئے۔گیٹ سے نکلتے ہی اندرا بولی ”ہوٹل امپیریل چلو۔“دھیروجی مسکرا دیئے ”وہاں کیسا فنکشن ہے ؟“
”یہ تو آپ کو وہیں چل کر بتاو¿ں گی۔۔۔ پہلے یہ بتائیے کہ رات آپ کو میرا کوئی پیغام نہیں ملا۔“
”ملا تو تھا۔۔۔ مگر تم خود سوچو اندرا۔۔۔۔ میں شیام کو اکیلے چھوڑ کر کیسے آسکتا تھا؟“
اندرا بڑے تیز لہجے میں بولی۔”مانا شیام کا حق مجھ سے بڑھ گیا ہے۔ مگر دھیروجی آکسفورڈ میں جو وقت ہم نے ایک ساتھ گزارا ہے ا±س کو کیسے بھول جاو¿ں۔“
”ہائے ظالم !۔۔۔ کیا یاد دلایا ہے تم نے “اندرا سرک کر دھیروجی کے نزدیک ہوگئی۔۔۔ اور میں نے شیشے سے نظریں ہٹالیں۔ 
ہوٹل امپریل پہنچے تو اندرا نے کمرہ لینے کے لئے کہا۔میں اندر گیا او منیجر سے ملکر 19نمبر کمرے کی ادائیگی کی۔ چابی لے کر باہر آنے کی بجائے کمر ے کو کھو لا۔ ملحقہ باتھ روم میں جا کر دوسری طرف کا دروازہ کھولا۔یہ ہوٹل کے عقب میں کھلتا تھا۔ دوبارہ کمرے کو بند کیا۔ اور جا کر بتا دیا کہ کمرہ نمبر 19 میں چلے جائیں۔ ان کے جاتے ہی میں نے ڈیش بورڈ سے کیمرہ نکالا۔ اور ان کے کمرے میں پہنچنے سے قبل ہوٹل کے پچھواڑے کی طرف باتھ روم میں پہنچ گیا۔ باہر کا دروازہ بند کر کے کمرے میں داخل ہوا۔ اور بیڈ کے نزدیک پر دے کے پیچھے جا کر چھ±پ گیا۔ ابھی سنبھلا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور دھیروجی اندرا کو ساتھ لئے کمرے میں داخل ہوئے۔ بیرا بھی ساتھ تھا ا±س نے آرڈر پوچھا تو ا±سے کافی کے لئے کہہ دیا گیا۔ 
بیرا بھی کوئی مستعد ملازم تھا۔ صرف پانچ منٹ میں کافی رکھ گیا۔ اندرا باتھ روم میں تھی۔ دھیروجی نے بیرے کو دس روپے کا نوٹ دیا اور وہ خوشی خوشی واپس چلا گیا۔ چند لمحوں بعد اندرا باتھ روم سے نکلی تو صرف بلاو¿ز اور انڈرویر میں ملبوس تھی۔ دھیروجی نے ا±سے اس حالت میں دیکھا تو یہ کہتے ہوئے۔۔۔
”ارادے تو بڑے خطرناک دکھائی دیتے ہیں“ اٹھے اور کمرے کا بیرونی دروازہ بولٹ کر دیا۔ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ اٹھکیلیاں ، گلے ، شکوے شروع ہوگئے اور ساتھ ساتھ کافی کا دور چلتا رہا۔ کافی ختم کرنے کے بعد دونوں بستر پر آگئے۔۔۔ 
اس کے بعد دو گھنٹوں کے درمیان میرے کیمرے نے جو مناظر اپنے اندر جذب کیے وہ ناقابل بیان ہیں۔ ہر ذی شعور آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ میں نے اس روز 16ناقابل فراموش تصاویر بنائی جو آج تک میرے پاس محفوظ ہیں۔ 
دھیروجی کا کوٹ پردے کے ساتھ تپائی پر پھینکاگیا تھا۔ وہ دونوں جب دنیا و مافیہا سے بے خبر گناہ کی وادیوں میں گم تھے۔ میں چپکے سے پر دے کے پیچھے کھسکا۔ کوٹ میں کل رقم 1200روپے تھی جو میں نے نکال لی۔ اور اسے دوبارہ وہیں رکھ دیا۔ 
تقریباً 2گھنٹے سے زیادہ دیر کے بعد یہ دونوں جب ہوش و خرد کی دنیا میں واپس آئے اورباہر چلے گئے۔ تو میں فوراً باتھ روم کے راستے نکل کر کارمیں جا بیٹھا۔ چند لمحوں بعد اندرا آئی اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میں نے پوچھا۔
”نپٹ لیا دھیروجی سے “
”بدتمیز۔۔۔“میں نے عقبی شیشے سے دیکھا تو اندرا مسکرا رہی تھی اور یہ مسکراہٹ ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔دھیروجی ہوٹل سے نکلے اور سیدھے اندرا کی طرف آئے۔ ”اندرا !۔۔۔ وہ دراصل میں اپنا پرس دوسرے کوٹ میں بھول آیا ہوں۔ کافی کا بِل دے دینا۔ “
اندر نے اپنے پرس سے سو روپے کا نوٹ نکال کر دیا۔۔۔ دھیروجی بل دے کر آئے تو ہم ا±ن کو ا±ن کی قیام گاہ پر چھوڑتے ہوئے ڈاکٹر سنہا کی کوٹھی چلے گئے۔