والدین کے حقوق

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 17, 2019 | 01:27 صبح

انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے بڑھ کر ہیں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئ ہے، والدین خاندان کی اصل اور جڑ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن حکیم میں کئی مقامات پر والدین کی مشترکہ حیثیت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ والدین کا درجہ بہت بڑا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو ضروری قرار دیا گیا ہے ،ترجمہ ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو‘‘ (النساء۔۳۶)

<
p>’’اور ان کے ساتھ ادب سے بات چیت کرو اور ان کے سامنے محبت اور انکسار کے ساتھ جھکے رہو‘‘(بنی اسرائیل۲۳)والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں نبی رحمتﷺ کے ارشادات انسانیت کی معراج ہیں ہر جمعہ کووالدین کی قبر پرحاضری دینے والے کی مغفرت کر دی جاتی ہے: حدیث نبویﷺ
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،ترجمہ:’’ اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھا ہے کہ اس (ایک رب) کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ حسن سلوک رکھنا۔‘‘(بنی اسرائیل۔ آیت نمبر۲۳)

اس آیت میں پھر تاکید کی جا رہی ہے کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔ غیر اللہ کی عبادت سے مکمل اجتناب کرے۔ اس لئے کہ تمہارا رب اس بات کا حکم دے چکا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔ عبادت تو اسی کی فرض ہے جو زندگی کی نعمتیں عطا کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے حسن سلوک کا حکم بھی ہے۔چونکہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اور اس کا ظاہری سبب اس کے والدین ہیں اس لئے پہلے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم فرمایا گیا اور اس کے ساتھ ہی ظاہری سبب بننے والوں کی تعظیم کا حکم دیا گیا۔اللہ تعالیٰ منعم حقیقی ہے۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجا لانا واجب ہے۔ اسی لئے اس کی عبادت فرض ہے ۔ دنیا میں اللہ کے بعد سب سے بڑے منعم والدین ہیں ۔ ان کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ حدیث نبویﷺ ہے:

’’جس نے لوگوں کا شکر نہ ادا کیا اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہ کیا‘‘۔(سنن ترمذی۔ مسنداحمد)

اولاد پر والدین کے جتنے احسانات ہوتے ہیں اتنے احسانات مخلوق میں کسی اور کے نہیں ہوتے۔ بچہ ماں باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ماں باپ بچے پر فطری طور پر شفقت اور محبت کرتے ہیں۔ وہ اسے ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود تکالیف اٹھا لیتے ہیں لیکن اپنے بچے کو تکلیف نہیں پہنچنے دیتے۔بچپن اور بڑھاپے میں انسان بہت کمزور ہوتا ہے۔ شیر خواری کے دنوں میں تو اپنے اوپر بیٹھنے والی مکھی کو بھی نہیں اڑا سکتا۔ وہ غذا کے لئے موسم کی سختیوں سے تحفظ کے لئے بھی بڑوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں یعنی بچپن کی ناتوانی اور محتاجی میں والدین اس کا بے لوث سہارا بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات کی طرح بقائے نسل کے لئے انسانوں میں بھی اپنی اولاد کو پروان چڑھانے کی جبلت اور فطرت ودیعت کر رکھی ہے۔ دیگر جانداروں میں اولاد اپنی پرورش کا صلہ دینے کی پابند نہیں لیکن نوع انسان کو اس کا پابند بنا یا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے،

ترجمہ:’’ اور آپ کا رب حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور اگر تمہاری زندگی میں وہ دونوں یا ان میں سے ایک بڑھاپے کو پہنچ جائے تو اس کو اف تک نہ کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور نہ ان سے بے ادبی سے بات کرنا اور ان کے سامنے عاجزی اور رحم دلی کا بازو جھکائے رکھنا اور یہ دعا کرنا ۔ اے میرے رب ان پر رحم فرمانا جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی‘‘۔ (بنی اسرائیل۔ آیت نمبر۲۳-۲۴)

انسان پر سب سے بڑے احسانات والدین کے ہیں کہ انہوں نے اس کی پرورش کی۔ بچپن میں اس کی کفالت کی اس کو تحفظ دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی انتہائی توقیرو تعظیم اور حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ فرمایا گیا کہ’’ اگر تمہاری زندگی میں وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی منزل کو پہنچ جائے تو اس کو نہ جھڑکنا بلکہ اف تک نہ کہنا‘‘۔ جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو اس کی طاقتیں اور توانائیاں مضمحل ہو جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات روز مرہ زندگی کے معمولات میں دوسروں کا دست نگر ہو جاتا ہے ۔ اس عالم میں وہ جذباتی طور پر اتنا حساس ہو جاتا ہے کہ اگر اولاد اسے جھڑ کے، اف تک بھی کرے تو اسے گراں گزرتا ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ بوڑھے ، ضعیف اور کمزور ہو جائیں توان کے لئے اپنے منہ سے کوئی سخت جملہ کوئی کرخت کلمہ نہ نکالو کہ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ اس لئے ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو۔ نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو۔ ان کے لئے تمہاری زبان سے کلمہ خیر نکلنا چاہئے کہ انہوں نے تم پر ایسا احسان کیا ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔

یعنی اس وقت پرورش کی جب تم چھوٹے ، کمزور و ناتواں تھے۔ اور دعا کیا کرو کہ اے پرور دگار ان پر رحم فرما ۔ جس طرح انہوں نے مجھ پر بچپن میں رحمت اور شفقت کی۔پھر اس آیت مبارکہ میں کہا گیا ہے۔ کہ ان کے سامنے عاجزی اور رحم دلی کا بازو جھکائے رکھو۔ یعنی ماں باپ کے سامنے اکڑنے کی بجائے عجزوانکسار کے ساتھ رہا جائے۔

پھر دعا کا حکم ہے کہ اے میرے رب، ان پر رحم فرمانا جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا یعنی پرورش کی۔

والدین کے لئے قرآن پاک میں جن مقامات پر نیکی اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا وہاں ایک اہم نکتہ پایا جاتا ہے۔ مثلاًجب بھی والدین کی خدمت اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا وہاں پہلے خدا کی عبادت کرنے اور شرک سے گریز کرنے کے احکامات ہیں لیکن یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ شرک کرنے والے والدین کی خدمت سے پہلو تہی کرو۔ کہا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت کی جائے۔ اگر والدین مشرک ہوں تو پھر بھی ان کی خدمت اور ان کے ساتھ صلہ رحمی سے کام لیا جائے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے والدین کی اطاعت کا حکم نہیں۔قرآن پاک میں والدین کے بارے میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے ،

ترجمہ:’’ اور ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اس کی ماںنے بڑی مشقت کے ساتھ اس کو پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنم دیا۔ اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ گئے ۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار، مجھے توفیق دے کہ میں آپ کی نعمتوں کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کہ مجھے سکھ چین دیں۔ میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع اور فرماں بردار بندوں میں سے ہوں‘‘۔(سورۃ الاحقاف۔۱۴)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ مائوں کی اس مشقت کا ذکر کیا ہے اور پھر کہا گیا کہ جو لوگ صاحب عقل اور سپاس گزار ہوتے ہیں وہ جوان ہونے پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق دے جو اس نے ان کو اور ان کے والدین کو عطا کیں۔ اور پھر اظہار تشکر اور حسن سلوک کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لئے دعا ہے کہ اے اللہ میری اولاد کو بھی نیک بنا تا کہ مجھے تسکین و اطمینان حاصل ہو۔ اس آیت مبارکہ کا خصوصی نکتہ والدین کا تذکرہ ہے جو اولاد کے لئے خاص طور پر تکالیف برداشت کرتی ہے۔ منشا و مقصد یہ یاد کرانا ہے کہ تمہاری ماں نے اتنی صعوبتیں برداشت کی ہیں اس لئے خصوصی توجہ اور حسن سلوک کی مستحق ہے۔والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں نبی رحمتﷺ کے ارشادات انسانیت کے لئے بام عروج پر ہیں۔

آپﷺ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور نیک برتائو کی ہر حال میں تاکید کی ہے چاہے والدین غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔

حضرت عبداللہؓ بن عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا۔ میں آپ ﷺ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اجر چاہتا ہوں، آپﷺ نے اس سے پوچھا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیاہاں دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ تم اللہ سے اجر چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا۔ جی ہاں۔ فرمایا اپنے ماں باپ کے پاس جائو اور ان سے نیک سلوک کرو۔(مسلم)

اللہ تعالیٰ نے ماں کے تین درجے بیان فرمائے۔ اس نے کمزوری پر کمزوری برداشت کی۔ بچے کو اپنے پیٹ میں رکھا۔ پھر مشقت کے ساتھ جنم دیا اور پھر اس کو دودھ پلایا۔ چنانچہ ماں کو باپ پر تین درجہ فضیلت ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی ماں کی تین درجہ فضیلت بیان فرمائی۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ میرے حسن خدمت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟

آپﷺ نے فرمایا ’’تمہاری ماں‘‘۔عرض کیا۔ پھر کون؟

آپﷺ نے فرمایا…’’ تمہاری ماں‘‘۔عرض کیا۔ پھر کون؟

آپﷺ نے فرمایا…’’ تمہاری ماں‘‘ ۔ عرض کیا۔ پھر کون؟

آپﷺ نے فرمایا…’’ تمہارا باپ‘‘ (بخاری ۔ مسلم ۔ مسنداحمد۔ ابن ماجہ)۔ حضرت بریدہؓ بیان کرتے ہیں۔ ایک شخص سرکار دو عالم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے سخت گرمی میں ماں کو اپنی گردن پر سوار کر کے دو فرسخ (تقریباً ۹میل) سفر کیا۔ اتنی سخت گرمی تھی کہ اگر اس میں کچے گوشت کا ٹکڑا ڈال دیا جاتا تو پک جاتا۔ تو کیا میں نے ماں کا شکر ادا کر دیا؟ آپﷺ نے فرمایا۔ یہ تو ماں کا تمہاری طرف کشادہ روئی سے دیکھنے کا بدلہ ہوا۔ (معجم صغیر طبرانی)

سیدہ اسماء بنت ابو بکرؓ فرماتی ہیں کہ میری ماں گھر آئی وہ رسول مقبولﷺ کے زمانہ میں ایمان نہیں لائی تھیں۔میں نے رسول اللہﷺ سے کہا… میری ماں آئی ہے اور مجھ سے کسی چیز کی خواہش مند ہے۔ کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا’’ ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہو‘‘۔(بخاری۔ مسلم۔ ابودائود) ۔حضرت ابوہریرہ ؓنے فرمایا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے ’’ جس شخص نے اپنے والدین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قبر پر ہر جمعہ کو حاضری دی تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔

اور اسے مطیع و فرماں بردار لکھ دیا جاتا ہے‘‘(رواہ ابطرانی فی الاوسط)۔ زبان زد خاص و عام یہ حدیث ہے کہ جنت مائوں کے قدموں تلے ہے۔اسی طرح باپ کی اطاعت و فرمابرداری پہ زور دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا ’’باپ کے غصہ میں اللہ کا غصہ ہے‘‘۔والدین کے ساتھ حسن سلوک کا دروازہ صرف ان کی زندگی تک ہی کھلا نہیں رہتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی وہ بدستور کھلا رہتا ہے ۔

لہٰذا ان کے انتقال کے بعد بھی ان سے حسن سلوک برابر جاری رہنا چائیے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے۔ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا۔ ’’ایک شخص کے والدین یا ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جاتا ہے اور وہ ان کا نافرمان ہوتا ہے لیکن ان کے مرنے کے بعد وہ ان کے لئے دعا اور استغفار کرتا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ہاں مطیع و فرماں بردار لکھ دیتے ہیں‘‘(بیہقی)

حضرت انس بن زرارہؓ روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’بیٹے کا اپنے والد کے مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کرنا بھی ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک ہے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے۔’’جنت میں ایک شخص کے درجات بلند کر دئیے جائیں گے۔ وہ بار گاہ ایزدی میں عرض کرے گا اے اللہ۔ میرے ساتھ یہ معاملہ کیوں ہوا؟ کہا جائے گا۔ تیرے بیٹے نے تیرے لئے استغفار کیا اس وجہ سے تمہارے درجات بلند کئے گئے‘‘( مسند احمد، ابن ماجہ)

حسن سلوک صرف یہی نہیں کہ ان کو مال دیا جائے یا ہر رات ان کے پائوں دبائے جائیں بلکہ والدین سے نرم اور شستہ گفتگو کرنا بھی حسن سلوک میں داخل ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:ترجمہ:’’ اور ان کے ساتھ ادب سے بات چیت کرو اور ان کے سامنے محبت اور انکسار کے ساتھ جھکے رہو‘‘(بنی اسرائیل۲۳)

حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ایک شخص سرکار دو عالمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس کے ساتھ ایک بوڑھا شخص بھی تھا۔ آپؐ نے پوچھا۔ ’’تمہارے ساتھ کون ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا۔ میرے والد۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا۔’’ ان کے آگے نہ چلنا۔ ان سے پہلے نہ بیٹھنا انہیں ان کا نام لے کر نہ پکارنا اور ان کو برا بھلا کہلوانے کا ذریعہ نہ بننا‘‘۔(معجم الا وسط اللطبرانی)۔ایک دفعہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا۔

یا رسول اللہؐ ۔ میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے ۔ کیا میرے لئے کوئی توبہ ہے؟ فرمایا۔ ’’کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ عرض کیا۔ نہیں ۔ دریافت فرمایا۔’’ خالہ ہے؟‘‘ عرض کیا۔ ہاں ہے۔ فرمایا’’ اس کے ساتھ نیکی کر یہی اس کی توبہ ہے‘‘ (ترمذی)۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں مضمر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے‘‘۔(ترمذی، حاکم)

جب اولاد والدین کی خدمت کرے اور ان کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کرے تو پھر والدین کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اولاد کے لئے دعا نکلے گی۔ جو اللہ کے ہاں مقبول ہو گی کیونکہ حدیث نبویؐ ہے۔’’ تین دعائیں بلاشک و شبہ قبول ہوتی ہیں،۱۔ مظلوم کی دعا۔۲۔مسافر کی دعا اور۳۔اولاد کے حق میں والدین کی دعا‘‘۔ (بخاری فی الادب المفرد، مسند احمد، ترمذی)ابن ماجہ میں یہ الفاظ ہیں۔

والد کا اپنے بیٹے کے لئے دعا کرنا۔حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے ۔ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:’’ چار آدمیوں کی دعا مقبول ہوتی ہے ۔ نیک اور عادل حکمران، ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے لئے اس کی پیٹھ پیچھے دعا، مظلوم کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے لئے دعا‘‘۔(حلیتہ اولیاء)۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی ، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا ہیں‘‘۔(بخاری)

والدین کو غمگین کرنا یعنی کوئی ایسی بات کرنا جس سے وہ غم زدہ ہوں یا رونے لگیں، نافرمانی میں داخل ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالب ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا۔’’ جس شخص نے والدین کو غمگین کیا اس نے ان کی نافرمانی کی‘‘۔اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آپ ؐ کا ارشاد ہے ۔’’ جس شخص نے والدین کو رلایا اس نے ان کی نافرمانی کی‘‘ (الادب المفرد۔ بخاری)۔

والدین کی نافرمانی اخروی فلاح میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ حضرت عمروبن مرہ ؓ کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ کی خدمت میںایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ ۔میں نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اور پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور اپنے مال کی زکوٰاۃ دی اور رمضان کے روزے رکھے۔

‘‘نبی مکرمؐ نے فرمایا۔ ’’جو شخص اس حالت میں مرے گا وہ قیامت کے روز انبیاء کرامؑ صدیقین اور شہداء کے ساتھ اس طرح ہو گا‘‘ اور آپ ؐ نے دونوں انگلیاں اٹھائیں اور انہیں ساتھ ملا یا اور کہا جب تک کہ وہ اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرے‘‘۔(احمد بن حنبل و طبرانی)۔اللہ تعالیٰ والدین کی نافرمانی کرنے والے شخص کے نیک اعمال بھی قبول نہیں فرماتے۔ حضرت ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا’’ تین آدمی ایسے ہیں جن کے نہ کسی فرض کو اللہ تعالیٰ قبول کرتے ہیں۔ اور نہ کسی نفل کو۔ والدین کے نافرمان، احسان جتلا نے والے اور تقدیر کے منکر‘‘،(کتاب السنہ)۔