با با ئے قوم کے آخری ایام

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 11, 2017 | 07:42 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/شاہد رشید):پاکستان قائم ہوا تو قائداعظمؒ کی صحت جواب دے چکی تھی لیکن وہ آخر دم تک مصروف رہے۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ انہیں آرام کا مشورہ دیتیں لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں کا عذر پیش کردیتے اور بہن کو اپنے عظیم بھائی کی قومی ذمہ داریوں کے سامنے ہتھےار ڈالنے پڑتے۔ بحالی صحت کی خاطر جب قائداعظمؒ کو مجبوراً کوئٹہ جانا پڑا تو محترمہ فاطمہ جناح ان کے ساتھ تھیں وہاں ڈاکٹر ریاض اور کرنل الٰہی بخش نے قائداعظمؒ کا علاج شروع کیا۔ انہوں ن

ے قائداعظمؒ کو ان کی بیماری سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے پوچھا کہ فاطمہ کو تو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا؟ جب ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ وہ انہیں بھی سب کچھ بتا چکے ہیں تو قائداعظمؒ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: ”انہیں نہیں بتانا چاہئے تھا۔ بہرحال وہ ایک خاتون ہیں اور خواتین میں ضبط اور برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے“ علاج جاری تھا ڈاکٹروں نے ایک نرس تیماری داری کےلئے رکھنے کا مشورہ دیا لےکن قائداعظمؒ نے کہا کہ ان کی تیمار داری اس وقت بھی بہتر طور پر ہورہی ہے۔ حقیقت ہی ہے کہ قائداعظمؒ کی دیکھ بھال کی تمام ذمہ داری محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اٹھا رکھی تھی۔ ظاہر ہے کہ بہن سے زیادہ بھائی کی خدمت کون کرسکتا تھا وہ دن رات بھائی کی خدمت کرتے گزارتیں ان کی بے آرامی کو دیکھ کر قائداعظمؒ نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا اور ڈاکٹروں کو نرس کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیدی۔ چنانچہ ایک تجربہ کار نرس مسر نےتھےنل کو قائداعظمؒ کی دیکھ بھال کا فرض سونپ دیا گیا لیکن محترمہ فاطمہ جناحؒ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہ ہوئیں۔ وہ حسب معمول سارا کام اپنے ہاتھ سے کرتیں۔

قائداعظمؒ کی علالت نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی مصروفیات اور تفکرات میں اضافہ کردیا تھا۔ ڈاکٹر انہیں بیماری کی نوعیت سے آگاہ کرچکے تھے جس سے انکی بے چینی اور بڑھ گئی تھی۔ وہ رات کو کئی کئی مرتبہ اٹھ کر قائداعظمؒ کے کمرے میں جھانکتیں اگر محسوس کرتیں کہ بھائی کی طبیعت پرسکون نہیں تو نرس کو جگانے کی بجائے خود بھائی کے کمرے میں آکر آکسیجن لگاتیں۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ قائداعظمؒ کی بہن ہی نہیں ان کی مشیر اور معاون بھی تھیں اس لئے ان کی مصروفیات میں اور بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ روزمرہ کی ڈاک دیکھنا‘ فائلیں پڑھ کر سنانا اور پرائیویٹ سےکرٹری کو قائداعظمؒ کے خیالات سے آگاہ کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔ ایک طرف مملکت پاکستان کے بانی حضرت قائداعظمؒ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے دوسری طرف ملکی حالات بگڑتے جارہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ فرماتی ہیں کہ اگست 1948ءکے آخر میں اُنہوں نے ایک دن بڑے حسرت زدہ لہجے میں کہا: ”فاطی مجھے اب زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی اب تو صرف ایک ہی خواہش ہے کہ جس قدر جلد ہوسکے اس دنیا سے رخصت ہوجاﺅں“ بہن نے اس یاس کے عالم میں بھی بھائی کی دلجوئی کی اور فرمایا: ”آپ مایوس نہ ہوں انشاءاللہ آپ بہت جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔“ لیکن قائداعظمؒ کا جواب ہوتا: ”نہیں مجھے اب مزید زندہ رہنے کی تمنا نہیں۔“ قائداعظمؒ زندگی بھر مشکل سے مشکل حالات میں بھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔ وہ جہد مسلسل کے قائل تھے اور جانتے تھے کہ مسلسل جدوجہد کرنے والوں کو خدا کبھی مایوس نہیں کرتا لیکن آخری وقت میں ملکی سیاست کا انداز دیکھ کر وہ اظہار مایوسی کئے بغیر نہ رہ سکے۔یہاں تک کہ مزید زندگی کی خواہش بھی نہ رہی۔ محترمہ فاطمہ جناح کہتی ہیں کہ میرے مشوروں کے باوجود انہوں نے قومی کاموں کو ہمیشہ اپنی صحت پر ترجیح دی یہاں تک کہ جب وہ بستر مرگ پر تھے اس وقت بھی انہیں وطن کا ہی خیال رہتا تھا۔ ڈاکٹر انہیں جان لیوا مرض سے آگاہ کرچکے تھے اس کے باوجود ایک مردمومن کی طرح ان کے ذہن پر موت کا کوئی بوجھ اور خوف نہیں تھا وہ آخری وقت تک اپنی بیماری سے پریشان ہونے کی بجائے ڈاکٹروں کی پریشانی دور کرتے رہے جو انہیں اس عظیم قائد کی خطرناک بیماری کی وجہ سے لاحق تھی۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ ”مائی برادر“ میں لکھتی ہیں کہ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق جب ہم زیارت سے کوئٹہ واپس آئے تو قائداعظمؒ افاقہ محسوس کرنے لگے۔ بقول مادر ملت قائداعظمؒ نے فرمایا کہ میں کوئٹہ پہنچ کر سانس لینے میں آسانی محسوس کررہا ہوں۔ اس پر ڈاکٹروں نے قائداعظم ؒ کو اجازت دے دی کہ وہ ایک گھنٹہ تک سرکاری امور انجام دے سکتے ہیں۔ مادر ملت کے خیال میں ڈاکٹروں کا اس سے مقصد یہ تھا کہ قائداعظمؒ کے خیالات بیماری کی طرف سے ہٹے رہےں پھر ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ بستر سے اٹھ کر کمرے مےں کچھ دےر چہل قدمی کرلےا کرےں۔جب قائداعظمؒ کی حالت انتہائی نازک ہوگئی تو ڈاکٹروں نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو مشورہ دیا کہ قائداعظمؒ کو واپس کراچی لے جانا چاہئے۔ عظیم بھائی کی زندگی کے یہ نازک لمحے محترمہ فاطمہ جناحؒ کےلئے بے حد تکلےف دہ تھے۔مادر ملت کے مطابق کوئٹہ میں ڈاکٹروں نے باہمی مشورے سے قائداعظمؒ کو فوراً کراچی لے جانے کا فیصلہ کر لیا ۔کیونکہ کوئٹہ کی بلندی ان کے کمزور دل کےلئے مناسب نہیں ہے۔ مادر ملت لکھتی ہیں کہ جب میں نے بھائی کو ڈاکٹروں کی رائے سے آگاہ کیا تو وہ فوراً رضا مند ہوگئے۔ انہوں نے فرمایا: ”مجھے کراچی لے چلو میں وہیں پیدا ہوا تھا اور وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں۔“ میں ان کے بستر کے پاس کھڑی رہی۔ عالم بے ہوشی میں ان کی زبان سے کشمیر‘ مہاجرین اور آئین کے الفاظ نکل رہے تھے۔ بقول مادر ملت 11ستمبر کو جو اس عظیم قائد کی زندگی کا آخری دن تھا ڈاکٹروں نے کہا کہ ہمیں آج بعد دوپہر دو بجے کراچی روانہ ہونے کےلئے ہوائی اڈے پر ہونا چاہئے چنانچہ گورنر جنرل کے طیارے وائےکنگ کو فی الفور کوئٹہ پہنچانے کا حکم دیا گیا۔ مادر ملت کہتی ہیں کہ ہم نے طیارے میں گیس ماسک تیار رکھا۔ جب ہم گورنر جنرل ہاﺅس پہنچے تو قائداعظمؒ گہری نیند سو گئے سفر نے ان کی حالت کو متاثر نہیں کیا تھا چنانچہ ڈاکٹر بھی تھوڑی دیر کےلئے چلے گئے ۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ جانتی تھیں کہ ان کا غم بھائی کو واپس نہیں لاسکتا۔ خدا کی مرضی پوری ہوچکی ہے لیکن جس کے ساتھ زندگی کے پچپن برس گزارے ہوں جس بھائی نے ماں باپ بن کر بہن کی پرورش اور تربیت کی ہو وہ بہن ان خدمات کو کس طرح فراموش کرسکتی تھی۔ گزرے ہوئے اچھے برے دنوں کی یاد انہیں تڑپا رہی تھی۔ برطانیہ میں قیام‘ گول میز کانفرنسیں ہندوستان کی سیاسی سرگرمیاں‘ ہندو مسلم رہنماﺅں کے قائداعظمؒ سے مشورے‘ قائداعظمؒ کی قیامِ گاہ پر سیاسی سرگرمیوں کی تصویریں ایک ایک کرکے نگاہوں کے سامنے گھوم جاتی تھیں۔وہ دو گھنٹے اسی طرح سوتے رہے۔ آنکھ کھلی اور جب سانس کی ڈوری ٹوٹنے لگی تو انہوں نےتو اشارے سے بہن کو اپنے پاس بلایا لیکن کوئی بات نہ کی کلمہ پڑھا اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ فاطمہ جناح بتاتی ہیں میں چیختی چلاتی باہر نکلی اور ڈاکٹروں کو پکارا جو واپس آچکے تھے۔ اُنہوں نے انجیکشن دیئے  میں بے حس و بے حرکت کھڑی ان کی کارکردگی کو دیکھتی رہی لیکن ڈاکٹروں نے چند منٹ بعد ہی قائداعظمؒ کو سفید چادر سے ڈھانپ دیا۔ میں اس کا مطلب خوب سمجھتی تھی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش بوجھل قدموں کے ساتھ میری طرف بڑھے اور میرے کاندھے پر ہاتھ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔ عظیم بھائی کی موت جن حالات مےں ہوئی وہ ایک روح فرسا داستان ہے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کا وہ بھائی رخصت ہوچکا تھا جس نے زندگی بھر کسی سے ہار نہ مانی جس نے ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ کو پارہ پارہ کر ڈالا اور جس نے پاکستان کی شکل میں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ کر دکھایا۔