نس جا  ۔۔۔۔

تحریر: ستار چوہدری

| شائع |

ہر قدم جس کو نئی چال نہ چلنی آئے
 وہ تو راہزن بھی نہیں،رہنما کیا ہوگا ۔
2013 اور2024  میں کیا فرق ہے ؟ ۔۔۔ صرف نام کا۔۔۔ اس وقت افتخار تھا،اب قاضی ہے۔۔۔ ایک ہی چال۔۔۔ ایک ہی واردات۔۔۔ اس نے بھی آر او کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا۔۔۔ اس نے بھی وہی کہانی دہرائی۔۔۔ عدالت عالیہ نے عدلیہ سے آر اوز لینے کا فیصلہ دیا۔۔۔ قاضی صاحب سیخ پا ہوگئے۔۔۔ ججوں کے بجائے درخواست گزار پر برس پڑے۔۔۔ فوری فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے بیوروکریسی سےالیکشن کرانے کا حکم دیدیا۔۔۔ د

یکھ لیئے انتخابات کےنتائج ؟۔۔۔ یہ دھاندلی نہیں،جمہوریت پربم گرایا گیا ہے،عوام کے حقوق پر شب خون مارا گیا۔۔۔

دنیا بھر میں اداروں کو ذلیل کردیا گیا۔۔۔عالمی میڈیا تھوک رہا ہے۔۔۔ خوفناک بحران پیدا ہوچکا۔۔۔جیسے 71 میں تھا۔۔۔اس سب کا ذمہ دار کون ؟ صرف اورصرف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔۔۔ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا۔۔۔ اسےکہتے ہیں منظم دھاندلی۔۔۔ لیکن اس کے باوجود یوتھ نے سکور بورڈ بدل کر رکھ دیا۔۔۔میاں صاحب اپنے آخری میچ کو یادگار نہ بنا سکے۔۔۔ صفر پرآؤٹ ہوگئے۔۔۔ رہیں دل کی دل میں حسرتیں ۔۔۔ بات ’’ نواز‘‘ دو سے۔۔۔ شہباز دو تک آگئی۔۔۔ اطلاعات ہیں بات اس سے بھی آگے چلی گئی ہے۔۔۔صدر ایوب کے پوتا نے ’’ قبولیت ‘‘ کا درجہ حاصل کرلیا۔۔۔ انکی قبولیت کو انکے کپتان کے بیان سے جوڑاجائے تو بات میں سچائی نظرآتی ہے۔۔۔ کپتان نے کہا ہے ’’ ہم انتقام نہیں لیں گے،ملک کی خاطر درگزر کرینگے‘‘ ۔۔۔ ایسا بیان کس وقت دیا جاتا ہے ؟۔۔۔ عقل مندوں کیلئے اشارہ کافی ہے۔۔۔  انہون نےنیلسن منڈیلا کے ٹرتھ اینڈ ری کنسلیشن کا بھی حوالہ دیا ۔۔۔ ملک کو آگے لے جانے کیلئے سچ ،معافی اور درگزر کی طرف جانا ہوگا۔

تحریک انصاف اقتدار میں آکر انتقام نہیں سیاسی استحکام و ترقی کی طرف پاکستان کو لے کر جائے گی ۔۔۔سیاسی پنڈت کہتے ہیں باپ کے ساتھ بیٹی بھی ناقابل قبول ہے۔۔۔پنجاب کا تاج کسی  اورکے سر پر سجے گا۔۔۔حکومت مارچ میں جاکر قائم ہوگی۔۔۔تحریک انصاف کو چھینی گئیں کچھ سیٹیں واپس مل جائینگی۔۔۔ایک خبرہضم نہیں ہورہی، ’’ ریکوری‘‘ مہم چلے گی۔۔۔اگلے چند ماہ میں عالمی مالیاتی اداروں کو خطیر رقم واپس کرنا ضروری۔۔۔خزانہ خالی۔۔۔پیسے کہاں سے آئیں گے؟ ۔۔۔مبینہ طور پر مالیاتی اداروں سے کوئی معاہدہ ہوا ہے۔۔۔پاکستانی عدالتیں فیصلہ دیں،وہ بیرون ملک پڑے پیسے ضبط کرکے اپنی قسطیں پوری کرلیں گے۔۔۔میری تو دعا ہے اللہ کرے یہ خبردرست ہو۔۔۔بڑےبڑے مرغوں کو ٹوکرے تلے بند کرنے کا منصوبہ  ہے۔۔۔اس کے ساتھ یہ خبر بھی ہے، اب ’’ علاج‘‘ لندن میں نہیں،پاکستان میں ہی ہونگے۔۔۔ ’’ مفادات کا بادشاہ ‘‘ صدر بھی نہیں بن رہا،دوصوبوں کی حکومت قائم کرے دبئی یا امریکا چلے جائینگے۔

میاں صاحب کا ذکر آیا تو بودی پہلوان یا د آگیا۔۔۔شہر کے مرکزی دروازے کے ساتھ دودھ،دہی کی دکان ،چالیس سال سے چلتا ہوا کاروبار،پہلوان کی پورے شہر میں شہرت،دکانداری کا فن ان کے بعد ختم۔۔۔ایک کلو کے گاہک کو دہی کا پورا کونڈا  زبردستی دے دیتے تھے،دودھ کی بھی اسی طرح فروخت،پکے گاہک،ہر ایک کے ساتھ کھلا ماحول۔قد چھوٹا تھا،بس سمجھیں اوپر کو بڑھنے کے بجائے دائیں،بائیں بڑھ گئے تھے،موڑے پر بیٹھا کرتے تھے۔۔۔ایک دوست کی بارات  جارہی تھی،ہم بھی ساتھ شامل تھے،جونہی بارات مرکزی دروازے پہنچی،پہلوان پھرتی سے دوڑ کردولہے کے گھوڑے کے سامنے آگیا،اونچی آواز میں بولا رکو۔۔رکو۔۔۔ ایک اہم بات کرنی ہے ۔۔۔اچانک ’’ حملے ‘‘ سے بارات میں شامل تمام افراد ایک دم سکتے میں آگئے،بینڈ باجا بھی خاموش ہوگیا،دولہے میاں بھی پریشان ہوگئے۔۔۔سب پہلوان کی طرف دیکھ رہے تھے نہ جانے وہ کونسا سانپ نکالتا ہے،پہلوان جی  دکان کے طرف مڑے اور بھاگتے بھاگتے گئے،موڑا اٹھا کر لائے،گھوڑے کے ساتھ رکھا،اس کے اوپر کھڑے ہوئے،دولہے کو اپنا کان نزدیک کرنے کا کہا۔۔۔دولہے نے فوری عمل کیا۔۔۔اس کے کان میں بولے ’’ پتر !!  ۔۔۔ اجے ٹائم ہے ہی،نس جا ‘‘ ۔۔۔