گندم سکینڈل: انارکی اور فساد کی طرف گامزن

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

پاکستان میں کئی قسم کے سکینڈل سر اٹھاتے رہے رہے ہیں۔ کبھی ان کی تحقیقات بھی ہوئی ملزموں کو مجرم ثابت کرکے ان کو سزائیں دی گئیں۔موجودہ گندم سکینڈل پاکستان کی تاریخ کا واحد سیکنڈل ہے۔جس کے ملزموں تک پہنچنا نہایت آسان ہے بلکہ ملزم خود چیلنج کرتے ہوئے اعتراف کر رہے ہیں لیکن ان پر ہاتھ ڈالا جا سکے گا نہ کوئی سزا دی جائے گی۔پاکستان میں ضرورت سے زیادہ بلا ضرورت گندم کس نے درآمد کی ؟ یہ پرائیویٹ سیکٹر میں درآمد کی گئی۔اجازت وفاقی حکومت نے دی اور اس دور میں  نگران وزیراعظم انوار الحاق ک

اکڑ تھے۔جب یہ سکینڈل سامنے آیا کہ بلا ضرورت  گندم درآمد کرلی گئی جس کی وجہ سے پنجاب حکومت نئی آنے والی فصل خریدنے کے قابل نہ رہی کیونکہ اس کے پاس سٹورز ہی موجود نہ تھے جن میں گندم خریدکر رکھی جاتی۔گندم کی درآمد کا سلسلہ شہباز شریف کی حکومت کے دوران بھی جاری رہا۔اس دور میں 80 ارب روپے کی گندم پاکستان پہنچی۔لیکن یہ سارے معاہدے نگران حکومت کے دوران ہوئے تھے۔

Roznama Dunya: گندم سکینڈل: وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے4 افسروں کو معطل کرنے  کی منظوری
مریم نواز حکومت کی طرف سے نئی آنے والی فصل گندم کی قیمت 3900 روپے پچھلے سال کی طرح برقرار رکھی گئی تھی لیکن کسان سے حکومت پنجاب نے  3900 روپے پر بھی خریداری نہیں کی۔
ڈان نیوز  کی رپورٹ کے مطابق نگران حکومت کے دور میں روس، یوکرین، بلغاریہ اور رومانیہ سے مجموعی طور پر 35 لاکھ 87 ہزار میٹرک ٹن سے زائد گندم پاکستان درآمد کی گئی۔پورٹ قاسم ریکارڈ کے مطابق 20 ستمبر کو 2023 کو ایم وی سی برڈ کے نام سے پہلا جہاز 49 ہزار میٹرک ٹن سے زائد گندم لے کر بلغاریہ سے پاکستان پہنچا۔دوسرا جہاز 23 ستمبر 2023 کو 53 ہزار میٹرک ٹن سے زائد گندم روس سے لے کر پورٹ قاسم پہنچا مارچ 2024 میں گندم کی نئی فصل آنے سے پہلے پاکستان میں 14 جہاز 7 لاکھ 87 ہزار میٹرک ٹن گندم لے کے پاکستان پہنچے۔یہ کھیپ شہباز شریف کی وزارت عظمی کے دوران پاکستان پہنچی

گندم درآمد سکینڈل: وزیراعظم کا سیکریٹری کابینہ کو مکمل شفاف تحقیقات کا حکم
روس سے گندم لے کر 2023 سے 2024 تک 40 جہاز پاکستان پہنچے اور روس سے درآمد کی گئی گندم کی کُل مقدار 21 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن سے زائد بنتی ہے۔ملک میں وقتاً فوقتاً گندم درآمد کرنے کے باعث گندم کے وافر ذخائر ہونے کی وجہ سے مقامی مارکیٹ کریش کی گئی۔
انوار الحق کاکڑ کے ہاتھوں مکمل طور پر بلیک میل ہونے والی حکومت کے وزیراعظم  کوبریفنگ میں بتایا گیا کہ منظم منصوبے کے تحت اضافی گندم درآمد ہوئی جس سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، پاسکو اورصوبائی محکمے مطلوبہ ہدف 7.80 کے بجائے 5.87 ملین ٹن گندم خرید سکے۔بریفنگ میں مزیدکہا گیا کہ گزشتہ سال28.18 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی، 2.45 ملین ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
کسان سے جب نئی گندم کے خریداری سے انکار کیا گیا تو گندم سکینڈل کے پرت کھلتے چلے گئے۔ نگران حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تو سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی طرف سے انٹرویو پر انٹرویو دیا گیا اور انہوں نے زائد گندم منگوانے کے نگران حکومت کے فیصلے کا کھل کر دفاع کیا ان کی طرف سے کہا گیا کہ جس طرح آج اٹا سستا ہوا ہے روٹی سستی ہوئی ہے وہ میری طرف سے منگوائی گئی گندم کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ میں نے گندم منگوائی تھی کوئی چرس اور افیوم نہیں منگوائی تھی۔جب ان سے گندم کے درآمد کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو انوار الحق کاکڑ فل فرسٹریشن میں نظر آتے ہیں۔بات کرتے ہوئے آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے۔
گزشتہ ماہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری جو اب لیفٹیننٹ جنرل ہو چکے ہیں ان کی طرف سے نو مئی کے حوالے سے پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن وہاں بنتا ہے جہاں کوئی ابہام ہو نو مئی کو جو لوگ ملوث تھے ان کے ملوث ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے لہٰذا جوڈیشل کمیشن کیوں بنایا جائے ۔اسی طرح سے گندم کی درآمد میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا کاکڑ کی طرف سے اعتراف کیا جا رہا ہے کہ ان کے حکم پر ہی یہ گندم منگوائی گئی تھی الٹا ہوا ہے اس کا کریڈٹ لیتے ہیں ۔
 ہے کوئی کاکڑ اور ان کی نگران حکومت سے 300  ارب روپے کا حساب مانگنے والا ؟
گندم سکینڈل  منطقی انجام تک پہنچتا نظر نہیں آرہا ۔اس کی ٹھوس وجہ یہ ہے کہ انوار الحق کاکڑ کی طرف سب سے پہلے انگلی حنیف عباسی کی طرف سے اٹھائی گئی وہ ایفیڈرین کی تجارت میں ملوث پائے جانے پر عمر قید کی سزا کے مستوجب قرار دیے گئے تھے معاملہ اگلی کورٹ میں گیا تو ان کے حق میں فیصلہ آگیا ۔ان کی ملاقات اتفاق سے وزیراعظم انوار اللہ کاکڑ سے ہو گئی  اس موقع پر انوار الحق کاکڑ ان کے ساتھ بڑی تلخی اور ترشی سے پیش آئے اور انہیں کہنے لگے کہ اپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں۔ آپ جیتے کس طرح ہیں یہ مجھے پتہ ہے ۔فارم 47 کی بات کی تو مسلم لیگ نون منہ چھپاتی پھرے گی۔
قومی اور عالمی سطح پر عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نون کئی سیٹیں فارم 45 پر ہار گئی تھی فارم 47 پر ان کے لیڈروں کو فاتح قرار دیا گیا۔ کاکڑ کا اشارہ اسی طرح تھا۔اسی وجہ سے گندم سکینڈل انجام تک پہنچتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ اس کی تحقیقات ہوتی ہے تو ہر لمحے آج کے حکمرانوں کو دھڑکا لگارہے گا کہ انوار الحق کاکڑ جیسا کہ انہوں نے دھمکی دی ہے اس پر عمل کرتے ہوئے فارم 47 کی حقیقت کو کھول نہ دیں۔
کسان کی طرف سے پورا ریٹ نہ ملنے پر وہ مجبور ہوا کہ اپنی گندم اونے پونے فروخت کر دے ۔اب تک اکثر کسانوں کے پاس فروخت کے لیے گندم نہیں بچی  جس ریٹ پر پر بھی  فروخت ہوئی انہوں نے فروخت کر دی۔ میں رواں ہفتے اپنے گاؤں گیا تھا وہاں گندم کا ریٹ 2200 سے 24سو روپے فی من تھا۔اور اس ریٹ پر یا اس سے تھوڑے زیادہ اور کم پر بھی گندم فروخت ہو چکی ہے۔یہ گندم اب بڑے بڑے بیوپاریوں اور ڈیلروں کے پاس پڑی ہے ۔شہباز شریف صاحب نے پاسکو کو حکم دیا ہے کہ وہ کسانوں سے گندم 3900 روپے فی من کے حساب سے خریدے لیکن اب یہ گندم کسان کے پاس موجود ہی نہیں تو کس کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا یہ آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔علی امین گنڈا پور کی  کے پی کے حکومت نے پنجاب سے گندم کی خریداری شروع کر دی ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف کی پاسکو کی طرح علی امین گنڈا پور کو بھی کسانوں کی تلاش ہوگی جن کے پاس ابھی تک فروخت کے لیے گندم موجود ہے۔

گندم درآمد سکینڈل: غفلت برتنے پر 4 افسران معطل
حالات کے انارکی اور فساد کی طرف جانے کا خدشہ کیوں ہے ؟۔کسان اگر 4 ہزار سے کم میں گندم فروخت کرے گا تو اس کو کسی قسم کا بھی مالی فائدہ نہیں ہے لیکن اگر یہ گندم دو ڈھائی ہزار میں فروخت کرے تو اس کے لیے سراسر گھاٹا ہے۔فصل کی بیجائی اور بوائی کے دوران اور بعد میں کھادوں کے جو ریٹ تھے وہ کسان کے لیے ناقابل برداشت تھے کھاد ڈبل ریٹ پر بلیک میں ملتی رہی ۔کسان کھاد بھی ادھار اٹھاتا ہے بیج اور ادویات بھی اس کو ادھار میں ہی لینی پڑتی ہیں اور اپنا ادھار فصل آنے پر وہ چکتا کر دیتا ہے۔اب کسان اس قابل نہیں ہے کہ وہ ادھار پر لیے گئے ڈیزل کی قیمت ادا کر سکے کھادوں کی بیجوں کی اور ادویات کی ادائیگی کر سکیں۔لیکن جو ڈیلر دکاندار بیوپاری  کسان کو ادھار میں دیتے ہیں وہ کسان پر احسان نہیں کرتے بلکہ انہوں نے اپنا ادھار منافع سمیت واپس لینا ہوتا ہے وہ اپنا قرض چھوڑیں گے نہیں کسان قرض کی ادائیگی کے قابل نہیں ہوگا تو پھر فساد اور انارکی نہیں ہوگی تو کیا ہوگا۔اس سب کا ذمہ دار ایک ہی شخص ہے اور وہ ہے سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ جو گندم کی درآمد کا برملا اعتراف کیا ہے ۔حکومت کی مجبوری سمجھ آتی ہے ہو سکتا ہے عدلیہ کوئی ایکشن لے لے۔