شالا مار باغ، لاہور

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 20, 2018 | 08:12 صبح

مغل بادشاہ شا ہ جہاں نے جب لاہور میں دربار لگایا تو علی مردان خان نے اسے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے جو نہر بنانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔ شاہ جہاں نے خوش ہو کر حکم دیا کہ دریائے راوی سے ایک نہر نکال کر لاہور کے پاس سے گذاری جائے۔ شاہ جہاںپھر لاہور آیا تو نہر مکمل ہوچکی تھی بادشاہ نے حکم دیا کہ اس نہر کے کنارے ایک وسیع و عریض اور بہت خوبصورت باغ بنایا جائے اور اس باغ میں بارہ دری شاہی غسل خانے فوارے اور پھل دار درخت لگائے جائیں بادشاہ نے اس کام کے لیے خلیل اللہ خان کو معاون خصوصی

مقرر کیا۔ لہٰذا خلیل اللہ خان نے ملک کے کئی اور افسروں کو ساتھ لگا کراس باغ کی تعمیر شروع کراو دی۔ باغ کے لیے درختوں کے پودے قندھار اور کابل سے منگوائے گئے یہ باغ شالامار تھا جو اسی (80)ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے اس کا سنگ بنیاد 1637ءمیں رکھا گیا اس پر کل لاگت اس وقت چھ لاکھ روپے آئی تھی اور ڈیڑھ سال کے عرصہ میں یہ مکمل ہوا تھا۔


شالا مار باغ کے نام کے متعلق کئی باتیں مشہور ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں نے اس باغ کا کوئی اور نام رکھا تھا لیکن عام لوگوں نے اسے شالا مار باغ کے نام سے یاد کرنا شروع کر دیا۔ دراصل شروع میں اس کا نام شعلہ ماہ تھا جس کے معنی ہیں چاند کی روشنی۔ اس باغ کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے چاند کا شعلہ کہا جاتا تھا بعد میں شعلہ ماہ سے بگڑ کر شالا مار باغ ہوگیا۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ نام خود شاہ جہاں نے تجویز کیا تھا۔
مشہور ہے کہ ایک بادشاہ کشمیر گیا تو اس نے وہاں ایک خوبصورت جگہ پر ایک باغ بنوانے کا حکم دیا تھا بعد میں اس بادشاہ نے دیکھا کہ اس جگہ پر شکاری کتے نے ایک گیڈر کو منہ میں دبوچ رکھا ہے کشمیری زبان میں گیڈر کو شالا اور شکاری کتے کو مار کہتے ہیں لہٰذاوہاں جو باغ بنوایا گیا اس کا نام شالا مار باغ رکھا گیا۔


شاہ جہاں نے لاہور کے قریب جو باغ لگوایا اس کا نقشہ کشمیر والے باغ کے نقشے کے مطابق تھا لہٰذا اس کا نام بھی شالا مار باغ رکھ دیا گیا۔باغ میں تین خطے رکھے گئے تھے۔ تینوں خطے تین الگ الگ باغ ہیں جس کے نام فیض بخش، حیات بخش اور تیسرا فرح بخش ہیںیہ خطے یا باغ ایک دوسرے سے بارہ یا تیرہ فٹ کی بلندی پر واقع ہیں ہر اونچے خطے سے نیچے اترنے کے لیے خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئیں ہیں۔باغ میں ایک دلکش تالاب بنا ہوا ہے جس میں بہت سے فوارے لگے ہوئے ہیں فواروں کا پانی سنگ مر مر کے حوضوں میں گرتا ہے یہ فوارے گرمیوں کے موسم میں جگہ ٹھنڈی رکھنے کے لیے لگوائے گئے تھے یہاں پر خوبصورت سنگ مر مر کی بارہ دریاں بنائی گئی ہیں بادشاہ ان بارہ دریوں میں بیٹھ کر برسات کا نظارہ کیا کرتا تھا۔
باغ کے اس حصے میں جسے حیات بخش کہتے ہیں سنگ مر مر کا ایک بہت ہی خوشنما تخت بنوایا گیا شاہ جہاں اس تخت پر بیٹھ کر اپنا دربار لگایا کرتا تھا کچھ فاصلے پر سنگ مر مر کا ایک آبشار بنا ہوا ہے کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساءکو اس آبشار کے پاس بیٹھنے کا برا شوق تھا زیب النساءچونکہ بڑی اچھی شاعرہ تھی اس لیے اکثر اس حسین جگہ پر بیٹھ کر شعر کہا کر کرتی تھی۔


شالا مار باغ میں شاہ جہاں نے اپنے لیے حمام بھی بنوایا تھا حمام کے تین حصے تھے ایک حصے میں دو فوارے اور دوسرے حصے میں حوض تھا اس حوض میں گرم اور ٹھنڈا دونوں طرح کا پانی لایا جاتا تھا سنگ مر مر کے کئی طاقمچے چراغ رکھنے کے لیے بنوائے گئے تھے جب یہاں چراغ چلائے جاتے تو حوض میں گرنے والا پانی بارش کا سماں پیدا کرتا اور چراغ کی روشنی بجلی کی چمک کی طرح معلوم ہوتی بادشا اس نظارے سے بہت لطف اٹھاتا تھا باغ فرخ بخش جسے پائیں باغ بھی کہا جاتا تھا حیات سے نیچے بنا ہوا ہے شالا مار باغ میں بہت سے پھلد ار درخت لگے ہوئے ہیں موسم گرما میں یہ پھل لاہور کے بازاروں میں خوب ملتے ہیں۔


باغ کی سیر کرنے کے لیے لوگ دور دراز سے آتے ہیں بہار کے شروع میں یہاں میلہ چراغاں لگتا ہے جو پنجاب کا سب سے بڑا میلہ ہے شہر اور اردگرد کے دیہات سے لاکھوں آدمی اس میلے میں شامل ہونے کے لیے گاتے بجاتے اور ناچتے ہوئے آتے ہیں یہاں سینکڑوں چھوٹے بڑے شامیانے لگتے ہیں جن کے اندر اور باہر لوگ اپنی اپنی توفیق کے مطابق خوشیاں مناتے ہیں۔


لاہور کا شالیمار باغ، دنیا کے عظیم الشان باغوں میں شمار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کسیدوست ملک کا سربراہ یا کوئی نامور شخصیت پاکستان کے دورے پر آتی ہے تو لاہور میں شالا مار باغ کی سیاحت اس کا لازمی حصہ شمار ہوتی ہے اس باغ میں معزز مہمان کو شہریوں کی طرف سے استقبالیہ دیا جاتا ہے ہزاروں شہری معزز مہمان سے ملتے اور اس سے بات چیت کرتے ہیں۔


معزز مہمان کو شالا مار باغ میں دعوت دینے کی رسم انگریز حکومت کے زمانے میں بھی رائج رہی چنانچہ 1876ءمیں شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم جو اس وقت پرنس آف ویلز ولی عہد سلطنت تھے برصغیر کی سیاحت کے سلسلے میں لاہور آئے تو ان کے اعزاز میں پنجاب کے گورنر نے شالا مار باغ میں رات کے وقت ایک عظیم الشان دعوت دی اس موقعہ پر باغ میں اس قدر روشنی کی گئی کہ رات پر دن کا گمان ہوتا تھا۔ 1907ءمیں شاہ افغانستان امیر حبیب اللہ خا ن مرحوم کو قیام لاہور کے دوران یہاںکے گورنرنے شالا مار باغ میں شاندار دعوت دی تھی شہنشاہ جارج پنجم شہزادگی کے زمانے میں لاہور آئے تھے تو انہوں نے بھی شالا مار باغ کی سیر کی تھی۔


1950ءمیں شہنشاہ ایران پاکستان آئے تو شالا مار باغ کو خوب سنوارا گیا اس موقعہ پر شالا مار باغ کا حسن اور جوبن اپنے عروج پر تھا اس طرح برطانیہ کی تاجدار ملکہ الزبتھ، ترکی کے سابق صدر جلال بابا، چین کے وزیر اعظم چو این لائی، انڈونیشیا کے مرحوم صدر ڈاکٹر احمد سوئیکارنو امریکہ کے سابق صدر کینڈی سعودی عرب کے سابق فرما نروا شاہ سعود بن عبد العزیز اور چین کے سابق صدر لیو ستاو¿ چی تشریف لائے تو ان سب کا شالا مار باغ میں شاندار استقبال کیا گیا ان میں سے ہر ایک نے شالا مار باغ کی خوبصورتی اور لاہور کے شہریوں کی مہمان نواز کی بہت تعریف کی۔
یہ باغ مغل بادشاہوں کی عظمت کی منہ بولتی یادگار ہے اقوام متحدہ کے ادارے یونسیکو نے ثقافتی ورثے کی بقاءتحفظ کے لیے پاکستان کے اس عظیم الشان باغ کے لیے سالانہ گرانٹ مختص کی ہوئی ہے۔