کہتے ہیں طاقت وہ ہے جس کا استعمال کرنا آپ جانتے ہوں ۔ طاقت کو استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جانیے اس تحریر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 31, 2018 | 08:17 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے “طاقتیں طاقتوں”سے ٹکراتی رہی ہیں اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ جو“واقعی طاقت ”ہوتی ہے وہ اپنا لوہا منوا ہی لیتی ہے۔ ایک میان میں دو “تلواریں”اور ایک جنگل میں دو“شیر”؟ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ہوتا یہ آیا ہے کہ“سب سے بڑی طاقت”ابھرنے والی کسی اور“طاقت” کواکثر بلا واسطہ خود نہیں دباتی بلکہ“دوسرے یا تیسرے”درجے کی“قوت”کو دودھ پلا پلاکر اور ہوا بھر بھر کر خوب

موٹا کرکے بھڑادیتی ہے۔ اس طرح “سانپ”بھی مار لیا جاتا ہے اور“لاٹھی”بھی ٹوٹنے سے بچ جاتی ہے۔ کثرت “طاقت” نہیں ہوتی“طاقت ہی طاقت”ہوتی ہے۔ کثرت”غبارے کی ہوا کی طرح ہوتی ہے جس کا اخراج کبھی“دھماکے”کے ساتھ ہوتا ہے۔۔ اور۔۔ کبھی صرف“پھس””!جب جب بھی“کثرت”کا گھمنڈ سر ابھار تا ہے “طاقت”حرکت میں آجاتی ہے… اور پھر کچھ “بلّوں”کو دودھ پلا کر اور ہوا بھر کر“شیروں”سے بھڑوادیا جاتا ہے اور کیونکہ پہلے یہ“ شیر”بھی کبھی“بلّے”ہی رہے ہوتے ہیں اس لیے ان کی ہوا نکالنا کوئی مشکل کام بھی نہیں ہوتا۔پھرہوتا یہ ہے کہ گردن کے سریے موم ہوجاتے ہیں، کمر کے مہروں کی سختی ختم ہوجاتی ہے اور گھٹنے مڑنے لگتے ہیں۔ لگتا ہے “کثرت کا جن”“طاقت کی بوتل‘”میں اتارلیا گیاہے۔ اسی لیےایک “بلّا”پا بہ زنجیر کردیا گیا ہے“دوسرے”کی خیر ہے، کچھ کر ہی لیں گے۔ آخر “طاقت تو طاقت”ہی ہوتی ہےیہ بھی پڑھیں۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “جلد از جلد اعمالِ صالحہ اختیار کرلو،ان فتنوں کے آنے سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح یکے بعد دیگرے آئیں گے،(حال یہ ہوگا کہ) آدمی اس حال میں صبح کرے گا کہ وہ ایمان والا ہوگا اور شام اس حال میں کرے گا کہ وہ ایمان سے محروم ہو چکا ہوگا”۔

دنیا کی حقیر متاع کے عوض وہ اپنا دین و ایمان بیچ ڈالے گا۔یہ فتنے گمراہ تحریکوں اور دعوتوں کی شکل میں بھی نمودار ہو سکتے ہیں اور مال و دولت اور اقتدار کی ہوس اور دوسری نفسانی خواہشات کی شکل میں بھی ان کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔اگر انسان کو شریعت پر استقامت کی نعمت حاصل نہ ہو تو ان فتنوں سے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا بہت دشوار ہے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “صبر اور استقامت کے ساتھ دین پر قائم رہنے والا بندہ،اس آدمی کی مانند ہے جو ہاتھ میں جلتا ہوا انگارہ تھام لے”(جامع ترمذی)۔ان فتنوں کی احادیثِ مبارکہ میں مختلف صورتیں ذکر کی گئی ہیں۔مثلاً وقت جلدی جلدی گزرنے لگے گا،نیک اعمال کی کمی ہو جائے گی،دین سے ناواقفیت پھیل جائے گی اور دین کا علم اٹھ جائے گا، بخل اور پیسے کی محبت عام ہوگی،قتل و غارتگری کا دور دورہ ہوگا،خود قاتل کو معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کررہا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا کہ اسے کیوں قتل کیا جارہا ہے؟ شراب کو شربت،سود کو تجارت اور رشوت کو ہدیہ کہہ کر حلال کیا جائے گا۔اولاد سے کراہت ہوگی، بارش سے ٹھنڈک کے بجائے گرمی کی سی تکلیف ہوگی۔بدکار سیلاب کی طرح پھیل جائیں گے۔ہر قبیلے اور گروہ کی سربراہی اس کے منافقوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ہر بازار کی سربراہی اس کے بدکاروں کے ہاتھ میں ہوگی۔مرد مردوں سے جنسی خواہش پوری کریں گے اور عورتیں عورتوں سے۔

لوگ نمازوں کو ضائع کریں گے اور امانتیں برباد ہوں گی۔انصاف کمزور ہوجائے گا اور ظلم کا دور دورہ ہوگا۔امن کم ہوجائے گا۔طلاقوں کی کثرت ہوجائے گی۔ناگہانی اموات بڑھ جائیں گی۔ عدالتی فیصلوں کی خرید و فروخت ہوگی۔آخر زمانے کے لوگ اپنی امت کے پہلے لوگوں پر لعن طعن کریں گے۔یہودیوں اور نصرانیوں کی پوری پوری نقالی کی جائے گی۔معمولی نا اہل آدمی جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کریں گے۔یہ چند مثالیں ہیں ان پیشگی خبروں کی جو آنحضرت ﷺ نے فتنوں کے دور کے بارے میں چودہ سو سال پہلے بیان فرمائیں۔جب ہم موجودہ حالات کے تناظر میں ان احادیثِ مبارکہ پر غور کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ احادیث موجودہ حالات کی مکمل آئینہ دار ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں فتنوں کے زمانے کے حالات کی پیشگی خبر دی،وہیں مختلف قسم کے فتنوں کے برے اثرات سے بچنے کے لیے وہ بنیادی نکات بھی بیان فرما دیے کہ اگر کوئی شخص ان کی پابندی کرلے تو کم از کم وہ اپنے آپ کو ان برے اثرات سے بچا سکتا ہے۔اگر ان پر عمل کرنے والوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی جائے تو یہی ان فتنوں کا اجتماعی علاج بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔چنانچہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “تم اس وقت ایسے زمانے میں ہو کہ جو کوئی اس زمانے میں احکامِ الٰہی کے بڑے حصے پر عمل کرے،لیکن صرف دسویں حصہ پر عمل ترک کردے تو وہ ہلاک ہو جائے گا

اور بعد میں ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ جو کوئی اس زمانے میں احکامِ الٰہی کے صرف دسویں حصے پر عمل کرلے،وہ نجات کا مستحق ہوگا”(جامع ترمذی)۔محدثینِ کرام اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہاں دسویں حصے پر عمل سے مراد اخلاص ہے کہ خیرالقرون کے مسلمانوں کی ہلاکت اخلاص کے دسویں حصے کے چھوڑنے پر ہو سکتی ہے لیکن امت کا آخری حصہ دس فیصد اخلاص بھی اختیار کرلے تو اس کی نجات ہو جائے گی۔گویا کہ امت کی نجات درحقیقت اتباعِ شریعت و سنت ہی پر موقوف ہے اگرچہ وہ خیر القرون کے مقابلہ میں قلیل ہی کیوں نہ ہو۔حضرت مقداد بن اسودؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے خود سنا آپ فرما رہے تھے کہ یقیناً “وہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہے جو فتنوں سے محفوظ رہ گیا، وہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہے جو فتنوں سے الگ رکھا گیا اور جو بندہ مبتلا کیا گیا اور وہ صابر اور ثابت قدم رہا تو اس کے لیے شاباشی اور مبارکباد ہے”(ابو داؤد شریف)۔ اگر کبھی مسلمانوں میں باہمی خانہ جنگی کا فتنہ کھڑا ہو تو ان سنگین حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی آنحضرت ﷺ کی تعلیمات میں واضح ہدایات موجود ہیں۔

بخاری و مسلم کی صحیح حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ “کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دیں گے(یعنی ان کی دعوت ایسی گمراہی پر مشتمل ہوگی جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہے)جو شخص ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے”۔(حدیث کے راوی کہتے ہیں) میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ؛ اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ “مسلمانوں کی اکثریت اور ان کے امام(سربراہ) کے ساتھ وابستہ رہنا”۔ میں نے عرض کیا کہ “اگر مسلمانوں کی نہ کوئی اکثریتی جماعت ہو،نہ امام(یعنی برحق سربراہ)تو پھر میں کیا کروں”؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ “ایسے میں ان تمام فرقوں اور گروہوں سے مکمل علیحدگی اختیار کرلینا”۔

جب فتنوں کا ظہور کثرت سے ہونے لگے تو ان سے بچاؤ کے لیے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ “عنقریب فتنے پیدا ہوں گے،ان فتنوں میں بیٹھنے والا،کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا سعی کرنے والے ( یعنی کسی سواری کے ذریعہ یا پیدل دوڑنے والے اور جلدی چلنے والے)سے بہتر ہوگا اور جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا،پس جو شخص ان فتنوں سے نجات کی کوئی جگہ یا پناہ گاہ پائے تو اس شخص کو چاہیے کہ اس کے ذریعہ پناہ حاصل کرلے”۔آپ ﷺ نے نہ صرف فتنوں کے زمانے میں ان سے بچنے کی ہدایات اپنی امت کو دی ہیں بلکہ نبی رحمت ﷺ نے پر فتن ماحول میں دین پر قائم رہنے کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں حضرت معقل بن یسارؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فتنے کے زمانے میں عبادت و نیکی کرنے کا ثواب میری طرف ہجرت کرنے کے ثواب کی مانند ہے۔