اہم خبریں

کاش ایسا نہ ہوتا!

جون آف آرک ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ جس نے غیبی آوازوں کے کہنے پر تلوار اُٹھائی اور اپنی جرات اور بہادری سے نہ صرف فرانس کو انگریزوں کے قبضے میں جانے سے بچا لیا بلکہ اس نے اپنے بادشاہ کی تاج پوشی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ کسی دور میں فرانس اور برطانیہ میں انتہا کو چھوتی ہوئی دشمنی تھی۔ جس کے اثرات ہنوز کسی حد تک باقی ہیں۔ 


پندرہویں صدی عیسوی سے برطانیہ کے خلاف سو سالہ جنگ کے آخری دنوں کے بعد سے جون آف آرک کو جرات مندانہ فتوحات کی وجہ سے فرانس میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ وہ فرانس کے دورافتادہ ایک گاؤں ڈومیلیہ میں 1412ءمیں پیدا ہوئیں اور انھیں ’میڈ آف لورین‘ بھی کہا جاتا ہے۔
صرف 17 برس کی عمر میں انھیں یہ یقین ہو گیا کہ غیب کی طرف سے انھیں یہ پیغام ملا ہے کہ وہ فرانس کو فتح سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ 1429ءمیں چارلس ہفتم نے اورلیوں کے محاصرے کو توڑنے کی مہم ان کے سپرد کی اور انھوں نے اس مہم میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔
انھوں نے بہت سی دیگر جنگی مہمات میں شرکت کی لیکن 1430ءمیں وہ کومپینئے میں پکڑی گئیں۔ انگریزوں نے انھیں 1431ء میں توہمات پھیلانے کا مجرم قرار دے کر رون میں زندہ جلا دیا۔ان کی ہڈیاں تک جل کر راکھ ہو گئیں کیونکہ ان کی لاش جل جانے کے بعد ان کی ہڈیوں کو دوبارہ جلایا گیا اور راکھ کو دریائے سین میں بہا دیا گیا تاکہ ان کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے۔ 1455ءمیں اس وقت کے پوپ کالکسٹس سوئم نے ان کے مقدمے کی از سر نو سماعت کی اور ان کے خلاف فیصلے کو تبدیل کر دیا لیکن ان کو مقبولیت اور تکریم 1909ءمیں تب حاصل ہوئی جب ان کی جائے پیدائش اور ان کی شخصیت میں بیسویں صدی کے اوائل میں عوامی دلچسپی بڑھنے لگی۔پہلی عالمی جنگ کے دوران ایسی اطلاعات بھی ملیں کہ فرانسیسی فوجی جون آف آرک کے عکس اپنے ساتھ لے کر میدان جنگ میں جاتے ہیں اور ایک موقع پر جرمن فوج کی سرچ لائٹس میں بادلوں میں ایک عکس دیکھا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ جون آف آرک کا تھا۔ 1920ءمیں انھیں باقاعدہ ایک روحانی شخصیت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور 'لورین کا کراس' دوسری عالمی جنگ میں فرانسیسی افواج میں ایک علامت بن گیا۔جون نے اپنے بارے میں کہاتھا۔’جب میں تیرہ برس کی تھی تو مجھے غیب سے آواز آئی کہ مجھے اپنی زندگی بدلنی ہو گی۔ میں نے اس دن روزہ نہیں رکھا تھا۔ مجھے یہ آواز چرچ کی دائیں طرف سے آئی۔ مجھے ان آوازوں کے ساتھ ہمیشہ چرچ کے دائیں طرف تیز روشنی بھی دکھائی دیتی ہے۔ تین مرتبہ یہ آواز سننے کے بعد مجھے یقین آ گیا کہ یہ آواز کسی فرشتے کی ہے۔‘
آج ہماری سیاست کا گھوڑا سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ سوار کی مرضی کے مطابق دوڑے لگاموں کے اشارے سمجھے تو منزل پر جلد پہنچ جانا ہوتا ہے۔ بدک کر بھاگے تو بے منزل ہو جاتا ہے اور پیچھے چھوڑی ہوئی دھول سے آنیوالوں کا راستہ بھی گُم کر دیتا ہے۔سیاست میں اختلاف ہوتا ہے ۔شدید ترین بھی مگر اختلاف، اختلاف کی حد تک ہوتا ہے۔ اسی کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ ذاتیات اور دشمنی پر چلا جائے تو جمہوریت کے لیے خوف کی علامت بن جاتا ہے۔ اسی اختلاف کی بنا پر ہتھکڑیاں لگنے سے، جلا وطنیاں بھگتنے اور پھانسی تک لگنے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ مخالفین کو سیاسی بنیادوں پر ہتھکڑیاں لگوانے، سزائیں دلوانے والوں کو بالآخر پچھتانا اور کہنا پڑا کاش ایسا نہ ہوتا!۔
 90کی دہائی سیاسی نفرتوں کی انتہا کا عرصہ ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت ہوا کرتی تھیں۔2006ء میں میثاقِ جمہوریت ہوا۔ میاں نواز شریف اور بینظیربھٹو بھائی بہن بن گئے۔ نفرتیں جاتی رہیں۔ ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ محترمہ شہید ہو گئیں لیکن یہ مفاہمت کا سفر نشیب و فراز کے باوجود جاری رہا۔ آج دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ کہتی ہے کہ نوے کی دہائی میں اور اس سے چند سال قبل تک جو ہوتارہا کاش ایسا نہ ہوتا۔

سرےمحل سے پاناما لیکس تک:سیاستدانوں کےنادر بیانات - Opinions - Dawn News
ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف محاذبنا، بھٹو صاحب کو اقتدار سے جانا پڑا اور بعد ازاں تختہ دار تک۔بھٹو کو اس مقام تک لے جانے والی پارٹیاں آج بھٹو کی پارٹی کے ساتھ شِیر شَکر ہیں۔ بھٹو کو نامناسب القابات دینے والے آج ان کو شہید کا درجہ دیتے اور پھانسی کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ برملا کہتے ہیں کاش ایسا نہ ہوتا۔

کیا ذوالفقار علی بھٹو نے واقعی اقوامِ متحدہ کی قرارداد پھاڑی تھی؟ |  Independent Urdu
آج سیاسی فضا مکدر ہے اور اس حد تک بے یقینی کی دھول اور مٹی سے اٹ چکی ہے کہ اس کی اصل شکل ہی معدوم ہو رہی ہے۔ 1970ءکی دہائی اور نوے کی دہائی والی بادِ صرصر بھر سرسراتی نظر آ رہی ہے گو کچھ سیاسی کردار ضرور بدل گئے ہیں۔2018ءکے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کی مدت ابھی ڈیڑھ ، سوا سال باقی تھی کہ نئے انتخابات کے جھنجٹ میں اُلجھ گئے۔ یہ زلفِ یار الجھی ہوئی نہیں تھی جس سے کوئی دل بہلاتا۔ یہ معمہ الجھتا ہی چلا گیا جوں جوں سلجھانے کی کوشش ہوئی۔ 8فروری کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انعقاد پر شکوک و شبہاب کے میڈیا میں اظہار سے حکماً منع کیا ہے۔

آپ نے 2 زبانوں کا قتل کیا ہے، چیف جسٹس فائز عیسٰی وکیل پر برہم - Pakistan -  AAJ

اس کے باوجود چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن بہر حال جلد یا بدیر ہونے ہیں۔ اگر شفافیت سے” پاک“ ہوئے تو نفرتیں دو چند ہو کر جمہوریت کومزیدگہنا دینگی۔ بلاول کے بیانات پر مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کا اسی لہجے میں جواب ایک بار پھر کم و بیش نوے کی دہائی کی روح فرسا یادوں کی راکھ کرید رہا ہے۔ مفاہمت ، مخاصمت میں بدل رہی ہے۔ بلاول الزام لگا رہے ہیں کہ نتائج طے ہو چکے ہیں۔ یہ بلاول کے دماغ میں سوچ کیوں اور کیسے پیدا ہوئی؟۔

وقت ثابت کرے گا اسٹیبلشمنٹ کتنی غیر جانبدار رہتی ہے، بلاول بھٹو زرداری
سیاسی حقیقتوں سے صرفِ نظر بلکہ اپنی مرضی کے مطابق معاملات کو ڈھالنے کی خواہش جمہوریت کے لیے تیغِ تیز دھار کی طرح ہوگی۔ کہیں آج بھی دوسروں کے لیے ناپسندیدگی ذاتیات اور دشمنی تک چلی گئی ہے۔ کسی نے کسی کو سمیش کرنے کی بات کی تھی۔ کوئی کریش کرنے کی دھمکی دیتا تھا۔ آج بھی ایسے رویے شمشیرِ بے نیام بنے ہوئے ہیں۔ شاید ایسی خواہش کی ماضی کی طرح بجا آوری بھی ہو جائے اور وقتی طور پر شادیانے بھی بجنے لگیں۔پھر خمار اترے تو کہنا ہی پڑے گا: کاش ایسا نہ ہوتا۔
جون آف آرک کو نفرت اور انتقام کی آگ میں  جلا ڈالا گیا تھااور پھروہی جون ایک فیصلے کے تحت فرانس کی ہیرو قرار پائی۔ہیروئن قرار دینے والوں نے بھی کہا تھا کاش ایسا نہ ہوتا۔ وہ نفرتیں ختم ہو گئیں ہماری اتنی منہ زور نہیں ہیں۔
یہ ساری کہانی تو سیاسی شدت کے بارے میں تھی۔ سیاسی حالات جو بھی ہیں ملک قائم ہے، وطن سلامت ہے، دشمن کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے۔ میانوالی ایئر بیس پر دہشتگردی ہوئی، اس کے بعد بھی دشمن خاموش نہیں، اس کی کارروائیاں جاری ہیں، مگرہمارے سامنے شاید نہیں آ رہیں۔ آج دہشتگردی کے خلاف برسرپیکاراداروں کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونا ہوگا۔ اس حوالے سے کوئی امر مانع ہے تو کیوں ہے؟؟ ہم سب اپنے آپ سے پوچھیں تاکہ کل یہ نہ کہنا پڑے:کاش ایسا نہ ہوتا۔

صحافت کے مردِ مجاہد

پیر محمد ضیاءالحق نقشبندی سی ایس ایس اکیڈیمی بھی چلاتے ہیں۔ اکیڈیمی کے ماتھے پر مجیب الرحمن شامی اور سہیل وڑائچ کی تصاویر جھومر بن کر دمک رہی ہیں۔ کم وسائل کے حامل لڑکے لڑکیوں کو فری تربیت دی جاتی ہے۔ فنڈز جمع کرنے کیلئے پیر صاحب کو بڑے کشٹ کرنا پڑتے ہیں۔ شامی صاحب اکیڈیمی کے پیٹرن انچیف اور سہیل وڑائچ صاحب ڈپٹی چیف ہیں۔ مواقع کی مناسبت سے اکیڈیمی میں تقریبات کا انعقادبھی ہوتا ہے۔ جس تقریب کی روداد آپ کے سامنے رکھنے جا رہے ہیں۔ اس سے مخاطب ہوتے ہوئے سجاد میر صاحب نے کہا کہ پیر صاحب ان کے پاس ہر ماہ آتے اور دوہزار روپے فنڈ کی مد میں لے جاتے۔ میں نے انہیں سال بھر کا ایک ہی بار فنڈ دینے کی بات کی تو یہ معذرت کر لیتے۔


پیر نقشبندی صاحب کی نئی کتاب سہیل وڑائچ شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب انہوں نے تیرہ سال میں مکمل کی اور اتفاق سے یہ حضرت پیرصاحب کی تیرہویں کتاب ہے۔انہوں نے سہیل وڑائچ کی سالگرہ کااہتمام کیا جس میں اپنے اور وڑائچ صاحب کے دوستوں کو دعوت دی۔ میں پیر صاحب کے پیرو کار کی حیثیت سے حاضر ہوا۔ نیاز مندی کا سلسلہ 15سال پر محیط ہے۔ اکیڈیمی میں جتنے لوگوں کی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ ان کی اور تقریب کے روحِ رواں سہیل وڑائچ کی محبت میں چلے آئے۔ 


پنڈال میں سب سے پہلے جا کر میں بیٹھا تھا۔ اکیڈیمی گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں طرف دو رویہ کرسیاں لگی تھیں۔ سامنے دس ہونگی جو تقریب کے روحِ رواں اور خاص و بڑے مہمانوں کے لیے تھیں۔ میں دائیں رو کی پہلی کرسی پر براجمان ہو گیا۔کیونکہ ....؟ تھوڑی دیر میں مدعوئین کی آمد شروع ہو گئی، میرے ساتھ ایک بڑی کالمسٹ تنظیم کے چیئرمین آ بیٹھے۔ کرسیاں پُر ہو گئیں۔ مہمان آتے رہے نقش بندی صاحب ڈگنیٹیز کو بٹھانے کیلئے اپنے بے تکلف مریدوں کو کہتے رہے”توں اُٹھ“ میرے ساتھ کی تیسری چیئر پر محمد مہدی بیٹھے تھے۔ تقریب کے اختتامی لمحات کے دوران ایک نورانی چہرے ، دستار وجبہ زیب تن کئے امام مہدی جیسی شخصیت کی آمد ہوئی۔ ان کے لیے پیر صاحب نے میرے ساتھ بیٹھے صحافی کو کرسی خالی کرنے کو کہا،ان کا جواب تھا ”عقل نوں ہتھ مار“ میں فطرتاً ایسے مواقع پر خود ہی اُٹھ جاتا ہوں مگر میں اس جگہ پر بیٹھ کر تقریب کور کر رہا تھا۔ سٹینڈ پر کیمرہ لگا تھا۔ میں اس جگہ بیٹھا بھی اسی لیے تھاورنہ تو میں بیک بنچز کا آدمی ہوں۔ میری میڈیاٹیم اس دن چھٹی پر تھی۔ میں نے یہ تقریب کور کی اسی روز رات کو سہیل وڑائچ کی سیاسی گفتگو اپ لوڈ کر دی۔ 


میں چونکہ گمنام بلکہ گمشدہ صحافی ہوں۔ بہت سے چہروں اور ناموں سے نا آشنائی ہے۔ اس تقریب میں مجھے بہت سے(نامعلوم نہیں )نا آشناچہرے نظر آئے۔پیر صاحب نے مسئلہ حل کردیا۔تمام شرکاءکے نام بتا دیئے۔ سجاد میر، خالد محمود وی سی پنجاب یونیورسٹی، صوفیہ بیدار، اجمل شاہ دین، عمار چودھری ، حنیف قمر، ضمیر آفاقی، حسین احمد پراچہ، نجم ولی، نعیم مسعود، قیصر شریف، عُزیر احمد، شاہد قادر،حمیرا راشد، زوہیب طیب،محمد کامران ،ڈاکٹر سعید الٰہی ، محمد عثمان ، سلمان عابد ،حامد سعید،سید مشتاق احمد شاہ ،دلاور چدھڑ، قلب حسین، سید علی بخاری، قاضی تمام عبداللہ ، سعادت اعجا ز قریشی ، مفتی محمد رمضان سیالوی، فرخ شہباز وڑائچ ، ڈاکٹر نوید الٰہی،مفتی محمد فہیم ، سید شاہ حسن، ڈاکٹر میاں جاوید اسلم ، عدنان خالد ، اطہر حسن اعوان، سید تنویر حسین شاہ ، سہیل احمد شیخ ، اختر بھٹی،آغرندیم سحر ، صہیب احمد مرغوب ، روخشان میر ،صفدر علی خان ،اشرف سہیل ،ندیم نذر ، نعیم ثاقب ، ، علی انور ، ماجد نظامی ، عطاء الرحمن مرزا ، ڈاکٹر تنویر قاسم نے تقریب کو رونق بخشی۔


شامی صاحب کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ وہ بیرون ملک تھے۔ تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ظاہر ہے سالگرہ کی تقریب میں مہمان خاص کی پذیرائی کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ آج کل سیاسی حالات پر بات نہ کرنا ممکن نہیں لہٰذا سیاست پر بھی بات ہوئی مگر کسی کے خلاف کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ سیاسی باتیں ہوئیں جو نفرت سے قطعی مبرا تھیں۔ سہیل وڑائچ صاحب آج کل مفاہمت برداشت اور تحمل کی تجاویز اور رائے دے رہے ہیں۔ انہوں نے صدارتی خطاب میں ایک بار پھر سیاست میں انتقام سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا۔” میری صحافتی زندگی اس بات کی گواہی ہے کہ میں نے کبھی کسی سیاسی جماعت کا لیبل اپنے اوپر نہیں لگنے دیا۔ مجھے بینظیر بھٹو ،میاں نوا زشریف اور تمام دیگر جماعتوں کے قائدین کا قرب ملا لیکن مجھے جیسے ہی خیال آتا ہے کہ میں ایک صحافی ہوںں تو پھر میں اس سیاسی جماعت کے لیڈر کی قربت سے دوری اختیار کر لیتا ہوں۔ نجم ولی کی دلپذیر تجویز تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ جب میاں نواز شریف کی رہائی، ان کے خلاف انتقام کی مخالفت کرتے تھے تو جن لوگوں کو یہ سب بہت اچھا لگتا تھا، آج آپ وہی بات عمران خان کے لیے کہتے ہیں تو اس کی شدید مخالفت کی جاری ہے۔ آپ اُس وقت درست تھے، آج بھی درست ہیں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ 

نجم ولی خان -مکالمہ
سجاد میر صاحب کی طرف سے اپنے خطاب میں کہا گیا کہ میں چہرہ دیکھ کر شخصیت کو جانچ لیتا ہوں۔ ایک صاحب کی بات جو سب سے زیادہ میرے دل کو لگی۔” صحافت میں بیلنس رکھا جانا ضروری ہے۔ آج بہت سے صحافی بیلنس نہ رکھنے پر آؤٹ ہو گئے“۔ انہوں نے بالکل درست کہا ۔ آپ لکھ رہے ہیں، ٹی وی پر پروگرام کرتے ہیں، کسی وجہ سے انتظامیہ یا ریاست آپ سے خاص لائن سے بیک ہونے کو کہتی ہے تو آپ کے سامنے دو راستے ہیں” مردِ مجاہد“ بن جانا، ”حق کا علم“ بلند کرتے ہوئے ڈٹ جانا۔ اس سے کیا ہو گا۔ آپ گھر یا کہیں اوربیٹھے ہوں گے۔ دوسرا راستہ، میڈیا میں موجود رہیں۔ اپنی بات کافی حد تک کر سکتے ہیں۔بلکہ آپ ہر بات کر سکتے ہیں۔ تلخ سے تلخ اور سخت سے سخت بھی مگر الفاظ کے مناسب چناﺅکیساتھ۔ اجمل نیازی مرحوم میرے نوائے وقت میں ہوتے ہوئے مجید نظامی صاحب سے دو مرتبہ روٹھے اور کالم لکھنا بند کر دیا۔ پہلی بار کئی ماہ بعد دوستوں کے کہنے پر آمادہ ہوئے۔ دوسری مرتبہ انہوں نے کالم نگاری کو خیر باد کہا تو میں نے تیسرے روزفون کر کے ان سے پوچھا۔” نیازی صاحب آج کل آپ کے کالم کہاں چھپتے ہیں؟“۔ ان کا جواب تھا۔” میں لکھتا ہی نہیں تو کہاں اور کیسے چھپیں گے“۔

معروف کالم نگار اور شاعر اجمل نیازی کو سپرد خاک کردیا گیا
” آپ کے خیالات کا اظہار کیسے ہوتا ہے؟“ میرے اس سوال پر انہوں نے کہا کہ نہیں ہوتا۔ ”تو پھر نیازی صاحب آپ کالم لکھا کریں اور گھر کے دروازے پر چسپاں کر دیا کریں“۔ اس پرنیازی صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا”کل سے کالم بھیج دیاکروں گا“۔خبر آتی ہے، فلاں اینکر کو نکال دیا گیا۔ فلاں گرفتار ہوگیا۔ وہ لاپتہ ہوگیا، یہ اغوا ہو گیا۔ اس کی نوبت کیوں آتی ہے؟۔ نہیں آنی چاہیے۔ نہیں آئے گی بس ذرا جذبات پر قابو رکھیں۔ بلے بلے کروانے کی خواہش کو تھپکی دے لیں۔ موقع او ر حالات دیکھ کر مردِ مجاہد بنیں۔

تعلیم و تربیت اور سیاست

ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ تربیت بارے کیا خیال ہے؟ تربیت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ سکول اور مدارس بھی اس ذمہ داری سے مبرا اور انکاری نہیں ہو سکتے۔ میڈیا میں عموماًایسی خبریں آتی ہیں کہ ایوارڈز تقسیم کے دوران کسی نے (بلا تخصیصِ صنف اور عمر) یہ کہہ کر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا کہ ایوارڈ جن کے ہاتھوں دلوایا جا رہا ہے وہ چور ہے، فراڈیا ہے، کم تعلیم یافتہ ہے، اس کا تعلق فلاں پارٹی یاادارے سے ہے۔

ایسے ردِ عمل پر دو آرائے پائی جاتی ہیں۔ ایک سراہنے والے، دوسرے تنقید کرنے والے۔خصوصی طور پر سیاسی بنیاد تنقید اور تحسین کی جاتی ہے۔ایوارڈ دینے والاکوئی بھی ہو، انکاری نہ صرف مہمان کی توہین کا ارتکاب بلکہ اپنی تربیت کا اظہار بھی کر رہا ہوتا ہے۔سیاسی بنیادوں پر جوتے اور سیاہی پھینکنے کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ یہ نفرت کا اظہار ہو سکتا ہے احتجاج کا طریقہ کار ہرگز نہیں۔
آج تحریک انصاف اپنے کچھ کئے ہوئے اور کچھ اَن کئے اعمال کے باعث ان دا لائن آف فائر ہے۔ پی ڈی ایم حکومت اس کے خلاف تَن کے کھڑی رہی۔نو مئی پی ٹی آئی کے لیے ڈیزاسٹر ثابت ہوا۔ نگران حکومت کی پالیسی تقریباً وہی رہی جو پی ڈی ایم کی تھی مگر ایک واضح فرق کے ساتھ ....۔جس کا تحریک انصاف ادراک کرنے سے قاصر رہی۔ عمران خان نگران حکومت کی تشکیل سے قبل جیل میں تھے۔دو سو کے قریب مقدمات پی ڈی ایم دورمیں بنے۔ نگرانوں کو اختیارات ضرور دیئے گئے مگر وہ مختارِ کل نہیں بنائے گئے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ لاہور میں لمز یونیورسٹی آئے۔ طلباءو طالبات سے انٹر ایکشن کیا۔ایک نوجوان نے سوال کیا”آپ 50منٹ لیٹ آئے ۔ آپ کو تعلیم کی قدر نہیں ہے“۔ آپ کے گھر مہمان آئے اگر آپ کے بچے یا آپ اس سے ایسا سوال کرتے ہیں تو سمجھ لیں تربیت بولتی ہے۔ ایک لڑکی نے سوال کیا کہ آپ نے ایسے حالات میں لمز آنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اس لڑکی نے لمز کی اہمیت کے بارے میں پوچھا تھا۔ اس کا وزیر اعظم نے مناسب جواب دیا۔ لڑکی کا سوال تضحیک آمیز نہیں تھا۔ اس پر تحریک انصاف کے کچھ حامی بلند آہنگ بحث کرتے رہے، کاکڑ پر پھبتیاں کستے رہے۔رسوائی کا سامان کئے رہے۔سوائے ایک کے طلبا طالبات کی طرف سے درست اور اپنی اہلیت کے مطابق مناسب سوال کئے گئے۔ پی ٹی آئی والے سوچیں، ذرا تحمل سے کام لیں۔ شہباز شریف سے کاکڑ کا موازنہ کریں گو کاکڑ بھی عمران خان کے لیے کلمہ خیر نہیں کہتے مگر جو رویے پی ڈی ایم حکومت کے وزراءاور وزیر اعظم کے تھے۔ جس طرح کی زبان استعمال ہوتی تھی اس کا تقابل فرمائیں ۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی باتیں تلخ ترش اور سخت ہیں ان کے پیشرو کے زہر میں بجھے تیروں کا جائزہ لیں جو عمران خان پر برستے تھے۔

لمز کے طلبہ نے وزیر اعظم سے کیا سوالات پوچھے؟
انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے پڑے پردے اُٹھ رہے ہیں۔ الیکشن یقینی نہ ہوتے تو میاں نواز شریف پاکستان کیوں آتے؟۔ مسلم لیگ ن کو ان کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی یقین کی حد تک امید ہے۔ جس کو آصف علی زرداری کے اس بیان نے دھندلا دیا ہے کہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دونگا۔ کسی کو اقتدار میں لانے اور نکالنے کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ہمارا اشارہ ”عزت اور ذلت اُسکے ہاتھ میں ہے“کی طرف ہے۔ تاہم اسباب اسی جہاں میں بنتے ہیں۔ دعوے کے مطابق شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں زرداری صاحب کا اولین کردار تھا۔ شہبازشریف مفاہمتی سیاست کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں زرداری صاحب نے اگر کبھی کلمہ خیر کہا ہے توبامرِ مجبوری ہی کہا ہے۔
پیپلز پارٹی بلاول کو وزیر اعظم بنانے کیلئے پر عزم ہے۔ ان کو نظر آتا ہے کہ بلاول کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ پی پی والوں کی نظر کمزور ہو گئی ہے یا عینک کے شیشے پراوس پڑ گئی۔ تحریک انصاف تو لیول پلیئنگ فیلڈ کا تقاضہ کرے تو کرے۔ پیپلز پارٹی بھی پھیپھڑوں میں ہوا بھر کے زور دار مطالبہ کر رہی ہے۔ آخر پیپلز پارٹی کو کیسے گمان ہوا کہ عوام بلاول کے دیوانے ، پیپلز پارٹی کے شیدائی ہو گئے ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب نے یہ سوال بڑی شدو مد سے اٹھایا ہے۔وہ کہتے ہیں:۔”انتخابی نتائج کے بعد ، دھاندلی کا واویلا شکست خوردگان کا شیوہ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں کی تالیفِ قلب کے لیے اس طرح کے جواز تراشتی رہتی ہیں لیکن جب یوم انتخاب سے مہینوں قبل ہی”لیول پلیئنگ فیلڈ“نہ ملنے کو بیانیے کا درجہ دے دیا جائے تو جان لینا چاہیے کہ کسی متوقع افتاد کی آہٹ ابھی سے محسوس کی جانے لگی ہے اور جلی حروف میں لکھا نوشتہِ دیوار کمزور بصارت والی آنکھوں کو بھی دکھائی دینے لگا ہے۔پیپلز پارٹی ایسے کیوں کر رہی ہے؟ کیا ملک کے طول و عرض میں اس کی مقبولیت کی دل پذیر ہوائیں چل رہی تھیں جو اچانک راستہ بھول کر ”رائیونڈ“ کی طرف نکل گئی ہیں؟کیا پنجاب کی جنتِ گم گشتہ پھر اس کے قدموں میں بچھ جانے کے لیے تڑپنے لگی تھی؟ کیا رائے عامہ کے جائزے اسے پاکستان کے عوام کی پہلی ترجیح بتا رہے تھے؟ کوئی وجہ تو ہوتی ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کی پالکی بلاول ہاؤس میں اترتا دیکھ رہی تھی کہ اچانک کھیل بگڑ گیا“۔عرفان صدیقی صاحب کا موقف بجا ، بہر کیف ہر کوئی وزارت عظمیٰ کی پالکی اپنے آنگن میں اترتی دیکھ رہاہے جو کبھی کسی کی خواہشات کی ارتھی بھی بن جاتی ہے۔ 

ملک میں قبل از وقت انتخابات کی ضرورت نہیں، بلاول
وہاڑی سے ہمارے کرم فرما اسلم خان صاحب قومی اور عالمی منظر نامے پراپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان کی طرف سے آج یہ نکتہ اٹھایا گیاہے کہ جمہوریت کے بڑی طاقتیں بڑے دعوے کرتی ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا ادارہ اقوام متحدہ اور اس کا طاقتور ترین سلامتی کونسل ہے۔جس کے مستقل اور عارضی ملا کرپندرہ ممبرہیں۔کسی عالمی مسئلے پر رائے شماری ہو تی ہے۔جمہوریت کی رو سے اکثر یتی فیصلہ مانا جاتا ہے مگر جہاں ایک مستقل رکن ویٹو کر کے 14کی رائے کو بلڈوز کر دیتا ہے۔ کیا یہی جمہوریت ہے اور جمہوریت کی روح ہے؟
 امریکہ میں جمہوریت کے زیادہ ہی پھول کھلتے ہیں۔ وہاں گُل کھلانے والے بھی موجود پاکستانی ڈاکٹر طلعت جہاں کو سفید فام نوجوان نے چاقوؤں کے وار کر کے بے رحمی سے مار ڈالا۔ اس سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ کیا طلعت جہاں کو فلسطینی سمجھ کر مارا گیا۔ گزشتہ دنوں ایک سفاک امریکی نے اپنی فلسطینی کرایہ دار خاتون کے خاندان پر حملہ کر کے اس کے بیٹے کو شہید کر دیا تھا۔وہ خود زخمی ہوئیں ۔ پولیس نہ آتی تو وہ بھی ماری جاتیں۔

Mohammad Hayat on X: "🚨🚨ایک افسوسناک خبر 🚨🚨 پاکستانی ڈاکٹر طلعت خان  امریکہ میں ایک بنیاد پرست متعصب جنونی پاگل گورے کے ہاتھوں قتل ہو گئی ہیں۔  اللہ ان کے اہل خانہ
اڈیالہ جیل کے حکام کی طرف سے کہا گیا گیا ہے کہ عمران خان کے پاص جیل میں آٹھ کمرے ہیں، نو ڈاکٹرتعینات ہیں۔ورزش کیلئے سائیکل،آہنی راڈ اورواک کیلئے بیس فٹ کا "گراﺅنڈ"ہے۔باورچی مرضی کا کھانا بناتاہے۔دیسی گھی میں تلی دیسی مرغی کی سہولت تو اٹک جیل میں فراہم کردی گئی تھی۔جیل گویا خان صاحب کیلئے جنت بنادی گئی ہے جس میں بس کمی ہے تو حوروں کی کمی ہے۔ 

جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی اپیل پر حکومت کو نوٹس جاری - Pakistan - Dawn  News

نواز شریف کرب

مینار پاکستان کے دامن میں ہونے والا کوئی بھی ، کسی کا بھی جلسہ کبھی ناکام نہیں ہوا اور کامیاب بھی نہیں ہوا۔ یہی کچھ میاں نواز شریف کے21 اکتوبر کے جلسے کے ساتھ ہوا، عمران خان کے جلسوں کے ساتھ ہوتا رہا۔21اکتوبر کا جلسہ بیک وقت بہت بڑا اور بہت معمولی تھا۔ جلسے کے حامیوں سے پوچھیں تو کہتے ہیں تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، تاریخی جلسہ تھا۔ مخالفین کو پنڈال خالی خالی نظر آتا ہے۔ لوگ گھروں میں بیٹھے دِکھتے ہیں۔ ایسی رائے دینے والے جلسے سے دور بیٹھے ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ ن 21اکتوبر کو بڑا پاور شو کرنا چاہتی تھی۔ جس میں اس کے بقول وہ کامیاب رہی۔ احسن اقبال نے شرکاءکی تعداد دو لاکھ بتائی ہے۔ اسے بڑا اجتماع کہا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی نظر جلسے پر یعنی شرکاءکی تعداد پر اتنی نہیں تھی جتنی میاں نواز شریف کے خطاب پر تھی۔
میاں صاحب کو ایوان فیلڈ میں 14سال العزیزیہ کیس میں سات سال قید کی سزا ہوئی تھی۔ایوان فیلڈ کیس میں سزا معطل جبکہ العزیزیہ میں وہ قید کاٹ رہے تھے۔اسی دوران خرابی صحت کی بنا پر علاج کے لیے لندن چلے گئے ۔4ہفتے کے لیے گئے تھے۔عدالت اور حکومت کی منظوری سے گئے ۔ 21اکتوبر کو واپس آئے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے۔ ایئر پورٹ پر ان کی ضمانت کے قانونی تقاضے پورے کئے گئے۔ جس پر مخالفین کو اعتراض ہے کہ عدالت کیوں نہیں گئے۔ اسلام آباد سے میاں صاحب لاہور ایئر پورٹ آئے، وہاں سے ہیلی کاپٹر میں انہیں مینار پاکستان لایا گیا جہاں ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ یہ ہونا ہی تھا۔ لوگ آئے ہی اس لیے تھے۔ میاں صاحب کیا کہتے ہیں ، اس طرف بہت سے جلسے سو دورلوگوں کے بھی کان لگے تھے۔

ن لیگ کے مینار پاکستان جلسے میں شریک لوگوں کی تعداد سامنے آگئی - ایکسپریس  اردو
میاں نواز شریف نے اپنا کرب بیان کیا۔کہ ان کے والد،والدہ اور اہلیہ سیاست کی نذر ہوگئے۔ 18ستمبر کو لندن میں انہوں نے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، کہا تھاکہ انکے احتساب ککے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اپنے خطاب میں میاں صاحب ایک اور ہی شخصیت نظر آئے۔ انہوں نے باور کرایا کہ کسی سے انتقام لینے کی تمنا نہیں ہے۔ میاں نواز شریف ان زخموں کا تذکرہ کرتے ہیں جو بھر نہیں سکتے مگر اب دنیا کو وہ گھاﺅدکھانا نہیں چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منزل پر پہنچ چکا ہوتا اگر ان کی حکومت1993ءمیں نہ توڑ دی گئی ہوتی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کم و بیش اتنی ہی مدت کے بعد توڑی گئی تھی جتنی مدت بعد میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کو صدر اسحق خان کی طرف سے چلتا کیا گیا تھا۔90میں بے نظیر بھٹو کی حکومت نہ ختم کی جاتی تو وہ بھی اپنے مقصد اور ایجنڈے کی تکمیل کر لیتیں۔میاں نواز شریف کی دوسری حکومت اس کے باوجود1999ءمیں ختم کر دی گئی کہ صدر کے پاس حکومت اور اسمبلیوں کے خاتمے کا اختیار نہیں تھا۔ میاں صاحب کے لیے90کی دہائی دکھوں کی زخموں کی دہائی ہے۔ وہ والد اور والدہ کے جنازوں کے ساتھ پاکستان نہ آنے پر صدمے کا اظہار کرتے ہیں۔ والد کی وفات جدہ میں جلا وطنی کے دوران ہوئی۔ جنرل مشرف نے پاکستان آنے کی اجازت دے د ی تھی۔ والدہ کا انتقال لندن میں ہوا۔ میاں صاحب لندن علاج کے لیے گئے تھے۔ میت کے ساتھ اس لیے نہ آسکے کہ عمران خان کی حکومت سے انتقام کا خطرہ تھا۔ میاں صاحب نے کلثوم نواز کی موت کا تذکرہ کر کے سننے اور دیکھنے والوں کو رُلا دیا۔ ان کو کلثوم نواز کی طبیعت بری طرح بگڑنے کی اطلاع ہوگئی تھی۔ سپریٹنڈنٹ جیل سے فون پر بات کرانے کی درخواست کی۔ تین فون سامنے پڑے تھے مگر اجازت نہ دی گئی۔ کہا گیا اوپر سے حکم ہے۔ دو ڈھائی گھنٹے بعد موت کی اطلاع آ گئی۔ کسی شخص کا ایسی صورت حال میں کرب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ایسا کیوں ہے اور خرابی کہاں پہ ہے؟ 


میاں صاحب نے یہ بھی اپنے خطاب میں کہا کہ آپ کو پتہ ہے مجھے کیوں ہٹایا گیا؟۔ کس کو نہیں پتہ میاں نواز شریف کو کس نے ہٹایا؟ یہ پتہ ہے کہ کس نے ہٹایا مگر کیوں ہٹایا اس سے خاص لوگ آگاہ ہو سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف سول بالادستی اورووٹ کو عزت کی بات کرتے رہے ہیں۔ان دونوں سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ میاں صاحب کے مخالفین کا بھی ان دو پر کا اتفاق ہے۔ آج ان کے لیے حالات سازگار ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے آسانی پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کریں یا نہ کریں ان کے لیے مجبوری نہیں ہے۔ کم از کم سول بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے معاملے پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
سیاستدانوں کے ساتھ جیلوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس سے کون لا علم ہے۔ سیاستدان حکومت سے جاتے ہیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے نہیں کیا۔ بعض اوقات تو حکومت کی طرف سے کئی گرفتاریوں کی ذمہ دار بھی لینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ میاں نواز شریف کبھی ریاست کے اندر ریاست کی بات کرتے تھے۔ پھر ریاست کے اوپر (Above)ریاست کی بات بھی کی۔ جمہوریت میں ایسا کیوں؟
میاں نواز شریف کی سیاست سے جتنا بھی اختلاف کریں مگر حقیقت یہ نظر آ رہی ہے کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ روایتی انداز میں جیسے وہ پہلے بنتے رہے۔ بے نظیر بھٹو بنیں، عمران خان بنے۔ پاکستان سازشوں کی آماجگاہ بھی ہے۔ میاں نواز شریف اور بڑے لیڈروں کو خدا سازشوں سے محفوظ رکھے۔ اقتدار میںآنے پر میاں صاحب کے لیے نظام کو درست کرنے کا بہترین موقع میسر آنے کو ہے۔ نظام درست ہو جائے تو کسی کو بھی اس کرب سے نہ گزرنا پڑے جس سے میاں نوازشریف گزر چکے ہیں۔

بلھے شاہ کی دھرتی کا سپوت

بلھے شاہ کا تعلق صوفی ازم اور علم و ادب سے ہے۔ اُس دھرتی کا ہر باسی انہی کے نقشِ قدم پر چلے ایسا ممکن نہیں ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی بلھے شاہ کو شخصیت کو مشعلِ راہ بنا سکتا ہے۔محمد اسلم لودھی کی زندگی کا سفر قصور سے شروع ہو کر واں رادھا رام سے ہوتا ہوا لاہور میں آخری پڑاؤ پر منتج ہوا۔ علم وادب میں اسلم لودھی بلھے شاہ کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں۔ لائن اِن کی اپنی ، بلھے شاہ کی اپنی ہے۔ چھوٹے خاندان چشم و چراغ بڑا آدمی کیسے بنا؟۔

یہ بڑا حیران کن ہے۔ اسلم لودھی کو میں بڑے آدمی کے روپ میں دیکھتا ہوں تو میں دہائیوں قبل ماضی میں چلا جاتا ہوں۔کھیل یا کسی بھی مقابلے میں کامیابی کا ایک کرائیٹریا ہے۔ جو مقابلے میں آگے نکل گیا۔ جیت گیا، وہ کامیاب ٹھہرا۔ کامیاب آدمی شخص یا انسان کی بات کی جائے تو معیارات یکساں نہیں ہوتے۔ اس بارے اپنی اپنی سوچ ہے۔ دولت مند ہو جانے کو کچھ لوگ کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اربوں کی جائیداد رکھنے والا اپنے سے زیادہ جائیداد کے مالک کو دیکھ کر خود کو ناکام سمجھنے لگ جاتا ہے۔ آپ نے جو ہدف مقرر کیا ہے وہ حاصل کر لیا تو کامیابی ہوگئی۔ اسی طرح بڑے آدمی کا تصور بھی اپنا اپنا ہے۔ میرا ایک کلاس فیلو سرکاری ملازم تھا۔ اس نے بڑا آدمی بننے کی کہانی پڑھی۔جس میں ایک شخص اپنے بیمار بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ بیٹے کو بڑا آدمی بنانا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تم خود بڑا آدمی کیوں نہیں بنتے۔ یہ بات اس شخص کے دل کو لگی۔ اس نے محنت کی سمت تبدیل کی اور دولت مند بن گیا۔ اگر امیر اور مالدار بننا بڑا آدمی تھا تو وہ بڑا آدمی بن گیا۔ میرے اس دوست نے یہ کہانی پڑھنے کے بعدنوکری چھوڑ دی۔اس نے پھیرے بازی شروع کر دی۔ دبئی جاتا خریداری کرتا پاکستان میں دُگنا قیمت پر فروخت۔ جاپان کا ویزا لگا۔ اس کے بعد راستے نظر آنے لگے۔ امریکہ میں سیٹل ہو گیا۔ ارب پتی بن گیا۔ اگر مال و دولت کو پیمانہ بنایا جائے تو میرے اس کلاس فیلو کے بقول وہ بڑا آدمی بن گیا۔
آج لودھی صاحب واقعی بڑے آدمی بن چکے ہیں اور جینوئن بڑے آدمی ہیں۔ان کی ایک سے بڑھ کر ایک تصنیف ہے۔ چوتھی سوانح عمری نوید سحر کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں اور زیر مطالعہ ہے۔
کتابوں کی تعداد غیر مطبوعہ سمیت ماشاءاللہ چونسٹھ ہے، ہر کتاب معیار کی معراج پر ہے۔ سب ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تحقیق کا ہر تقاضہ کما حقہ¾ پورا کیا گیا ہے۔جو پڑھ لیا یادوں میں بس گیا۔
 "شہادتوں کا سفر" میں نے تین مرتبہ پڑھی۔ اس کا یہ اقتباس دل پر نقش ہو کر رہ گیا۔
 محمد محفوظ شہید کے ورثا اور گاﺅں والوں نے ان کو قبرستان سے الگ دفنا کر مقبرہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک ان کو شہید ہوئے 6 ماہ 13 دن ہو چکے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا قبرکی کھدائی شروع ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، بادل چھا گئے۔ نعش نکالی گئی تو تابوت سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے جو گھر سے برتن منگوا کر محفوظ کر دئیے گئے۔ نئی قبر کھودی گئی تو وہ بھی پرانی قبر کی طرح معطر ہو گئی۔ شہید کے ایک بھائی نے دیدار نہیں کیا تھا۔ اس نے علماءسے دیدار کی درخواست کی۔ دوسروں کو کچھ نہ بتانے کی شرط پر اجازت دے دی گئی۔ بعد میں والدہ کے کہنے پر بتایا کہ شہید کی داڑھی تین انچ بڑھی ہوئی تھی جو شہادت اور تدفین کے وقت موجود نہ تھی۔ میت پر ڈالی گئی پھول کی پتیاں تروتازہ تھیں چہرے پر بشاشت اور طمانیت تھی۔
سنا ہے ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں ، جس کے پیچھے عورت کا ہاتھ نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کامیاب آدمی پر ہم بحث کر چکے ہیں۔اب ہم بات کریں گے اسلم لودھی صاحب کی ۔ وہ بڑے آدمی ہیں اور کامیاب بھی۔ وہ آج شہرت کی جس معراج پر ہیں وہ ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتی۔ انہوں نے جو بھی ہدف مقرر کیا حاصل کرتے چلے گئے۔کرنل امجد صاحب کے بقول اسلم لودھی پاکستان کی اردو مصنفین کی فہرست میں ایک روشن ستارہ ہیں۔ ان کی تحریر پڑھ کر ہمیشہ ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ اپنے مخصوص طرز تحریر کے باعث وہ علمی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
یہ تو آپ نے اسلم لودھی ان کی شخصیت اور کارکردگی و کارناموں کے بارے جان لیا۔ آخر میں تھوڑی اپنی بپتا تھی: دو روز قبل 18اکتوبر کی رات سوا آٹھ بجے معمول کے مطابق آفس سے گھر آ رہا تھا۔ جی ون مارکیٹ جوہر ٹاؤن میں سڑک پر تھوڑا رش تھا۔ ایک نوجوان گاڑی کی چھت پر دھپے مارنے لگا۔اس سے پوچھاکیا بات ہے۔ اس نے بیک مرر کی طرف اشارہ کیا جو آگے کی طرف ہوا تھا۔ میں نے لفٹ سائیڈ فرنٹ کا شیشہ کھول لیا۔ اسے کہا اسے سیدھا کر دو۔ گاڑی اس وقت رینگ رہی تھی۔اسی دوران رائٹ سائیڈ کی بیک سے چھت پر زور سے دھپے لگنے لگے۔ اس طرف توجہ کی۔ اس نوجوان نے برابرآ کر کہا دیکھ کے پاﺅں نیچے آنے لگا تھا۔ اس دوران اگلی سیٹ پر موبائل پر لگا وی لاگ بند ہو گیا۔ عموماً ایڈ آجائے تو ایسا ہو جاتا ہے۔ میں نے دونوں شیشے اوپر کئے گاڑی آگے بڑھائی۔ رش ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ موبائل کی طرف دیکھا ، نظر نہ آیا۔ سوچا سیٹ سے آگے گر گیا ہوگا۔ ساتھ ہی شک گزرا ہاتھ نہ ہو گیا ہو۔ ایسا ہی ہو چکا تھا۔ سیٹ پر ڈیوائس اور پاور بینک پڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک نہیں دو نہیں تین موبائل تھے۔ ایک کا تو ابھی پی ٹی اے بھی نہیں ہوا تھا۔ یوٹیوب چینل کے لیے پروفیشنل کیمرہ اور پوری ٹیم ہے۔ دو موبائل بھی ویڈیوز خصوصی طور پر انٹرویوز آن لائن ریکارڈنگ کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ تیسرا موبائل گھر سے پروٹیکٹر لگوانے کے لیے لے گیا تھا۔ تھانہ جوہر ٹاؤن میں رپورٹ درج کروا دی ۔سمیں بند اور نئی لینا کرِداردہے۔ میں ان صحافیوں سے ہوںجن کی پی آر نہ ہونے کے برابر ہے۔ سٹوری سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شایدکسی کے توسط سے ایک موبائل مل جائے۔ ویسے میں ایسی وارداتوں سے آگاہ تھا ،موبائل ایسے نہیں رکھتا تھا۔ جب ہونا ہو تو نقصان ہو ہی جاتا ہے۔اس واردات میں کئی اتفاقات ایک ساتھ ہوگئے۔نوسر بازوں کی شاطرانہ ذہنیت اور دیدہ دلیری ،کیا کہنے۔

طوفان الاقصیٰ میں بہتا صہیونی تکبر

اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا تصور چکنا چور ہو گیا۔اس کا غرور تکبر،رعونت طوفان الاقصیٰ آپریشن میں خش وخاشاک کی طرح بہہ گیا۔ناقابلِ تسخیر ہونے کے محض دعوے ہی ہوتے ہیں۔ عملاً کوئی سیکورٹی ناقابل عبور اور کوئی انٹیلی جنس ایجنسی پر فیکٹ نہیں ہو سکتی۔موساد اور شاباک کی ساکھ بھی اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کی کی طرح ریزہ ریزہ ہوگئی،ملیا میٹ ہوگئی۔ بہت سے شعبوں میں اسرائیل کی برتری مسلمہ تھی۔

فلسطین کی طرف سے ”آپریشن طوفان الاقصیٰ“ کے ذریعے اسرائیل کے ہوّا ہونے کے یقین کو ناقابل یقین ڈنٹ ڈالا ہے۔ جی یہ اپریشن ہی تھا۔ ایک تنظیم کی طرف سے کیا گیا اپریشن، کامیابی سے ہمکنار ہونے والا اپریشن: فلسطین نے حملہ میں پہل نہیں کی ہرگز نہیں کی۔اسرائیل کے فلسطین پر کب سے حملے ہو رہے تھے۔ ان کا جواب دیا گیا ہے۔ پانچ ہزار راکٹ میزائل چلائے گئے۔ چند منٹ میں اتنے میزائلوں کا فائر ہونا گویا بارودی گولوں کی برسات تھی جس نے اسرائیلی آئرن ڈوم سسٹم کو بےکار کر دیا۔ ایک ایک کر کے 5ہزار کیا ایک لاکھ میزائل فائر کئے جاتے تو ایک بھی ٹارگٹ پر نہ گرتا،سارے انٹرسپٹ ہوجاتے،جیسے ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ ایک وقت میں ہزاروں راکٹ چلے تو آئرن ڈوم نظام بیٹھ گیا۔

حماس کے حملوں میں کرنل سمیت ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 600 سے متجاوز، 1590  افراد زخمی
تین طرف سے حملہ کیا گیا۔ میزائل کہیں سے آئے، کہیں نصب ہوئے۔ فلسطین کی باقائدہ فوج نہیں۔اس کی ایک جنگجوتنظیم ہے۔اس نے ایک سے دوسری جگہ نقل و حرکت کی۔میزائل منتقل کئے۔لانچر نصب کئے۔ موساد اور شاباک بے خبر رہی ۔ دراصل ان کو فلسطینوں کی طرف سے ایسی کارروائی کی امید اس لئے نہیں تھی کہ وہ ان کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے۔
دشمن کو کبھی ہلکا نہ لینے والا اسرائیل ، اس لئے بھی خواب غفلت میں چلا گیا کہ فلسطین کو شاید سعودی اسرائیل رابطوں سے مسئلہ فلسطین کے حل کی امید لگ گئی ہو۔فلسطینوں کے لیے یہی اسرائیل کی جارحیت کا جواب دینے کا بہترین موقع تھا۔ مسئلہ ڈسٹ بِن میں جا چکاتھا جیسے فلسطینی ایک رات کے چند لمحاتی حصے میںبُک میں لے آئے۔ فلسطین کا جواب ایسا گویا شیر نے سوئی ہوئی لومڑی کوجادبوچا۔فلسطینیوں کے پیچھے کون ہے اس کے ساتھ کون ہے؟؟ 

G20 summit sets up Western clash with a rising Global South - Responsible  Statecraft
نئی دہلی کی جی 20 کانفرنس کا سب سے بڑا ایجنڈا تین براعظموںمیں راہ داری تھی یعنی سی پیک تھا، چین کے سی پیک کے مقابلے میں سی پیک: نیا سی پیک جو آغازِ کار سے پہلے ہی دفن ہو گیا۔ روس بھی انہیں طاقتوں کاماضی میں افغانستان اور آج یوکرین میں زخم خوردہ ہے۔ایران کودنیا سے الگ تھلگ کر کے رکھ دینے کی پالیسی نے ایران کے لیے کئی راستے کھول دیئے۔ فلسطینی اچانک سے اتنے طاقتور کیسے ہو گئے اس کی دیگروجوہات میں سے چین، روس، ایران کے کسی سے اپنے اپنے تحفظات بھی ہیں۔ اس کے ساتھ گولڈ امیئر نے ہاری ہوئی جنگ کس طرح جیتی تھی۔اس کی آج سمجھ فلسطینیوں کو آئی ہو۔
”اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے امریکی اسلحہ ساز کمپنی کے سربراہ سے ملاقات کے دوران ہتھیاروں کی خریداری کا سودا طے کیا۔ اگلے روز وزیراعظم نے معاہدے کی تفصیلات کابینہ کے سامنے رکھیں تو کابینہ نے سرے سے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ کابینہ کا استدلال تھا ”اتنے مہنگے ہتھیاروں کی خریداری سے قوم کو برسوں تک ایک وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔“ گولڈا میئر نے کابینہ کے دلائل سے اتفاق کیا تاہم جوابی دلائل دیتے ہوئے باور کرایا کہ اسرائیل جنگ جیت گیا تو دنیا اسے فاتح قرار دیگی۔ کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ فاتح قوم نے کتنی فاقہ کشی کی، دن میں کتنا‘ کتنی بار اور کیا کیا کھایا‘ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔ یوں گولڈا میئر نے اپنے دلائل سے کابینہ کو قائل کرلیا۔ پھر اسی معاہدے کے تحت خریدے گئے مہنگے ترین اسلحہ سے اسرائیل نے 1973ءمیں عربوں سے جنگ جیت لی۔ اس جنگ کے کچھ عرصہ بعد گولڈا میئر سے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے پوچھا کہ اسلحہ کی خریداری کیلئے انکے ذہن میں دلائل کیسے آئے؟ گولڈا میئر کا جواب چونکا دینے والا تھا جو ہم مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے بھی کافی ہے:”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں یعنی مسلمانوں کے نبی سے لیا تھا۔ جب محمد کا وصال ہوا تو انکے گھر میں چراغ کیلئے تیل خریدنے کی رقم بھی نہیں تھی۔ انکی اہلیہ (حضرت عائشہؓ) نے انکی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا۔ اس وقت بھی محمد کے حجرے کی دیواروں پر 9 تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کو جانتے ہوں گے، لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے مسلمانوں کی طرح، پختہ مکانوں کے بجائے خیموں میں زندگی گزارنی پڑے مسلمانوں کی طرح، تو بھی اسلحہ خریدینگے اور فاتح کا اعزاز پائینگے مسلمانوں کی طرح، ان مسلمانوں کی طرح جنہوں نے آدھی دنیا فتح کی لیکن آج یہ اپنی تاریخ کو بھلا چکے ہیں اسلئے بھی فتح کا ایک موقع موجود ہے۔“

گولڈا میئر: 'مشرق وسطیٰ کی صنف آہن' جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ  نے ختم کر دی - BBC News اردو
گولڈ امیئر نے یہ فارمولا، یہ حکمت عملی، لائحہ عمل مسلمانوں مستعار لیا تھاجبکہ یہ فلسطینوں کی تو اپنی میراث ہے۔جسے اب اسرائیل کے خلاف وہ اسی کو بروئے کار لائے اور سرخرو ہورہے ہیں۔
 مسئلہ فلسطین کا حل جنگوں سے نہیں نکل سکتا۔ ا س مسئلہ نے امن سے ہی حل ہونا ہے۔ امن کیلئے جنگ کا سامان تیار رکھنا گریز ہوتاہے جو بادی النظر میںفلسطینیوں تیار کرلیا ہے۔ سعودی عرب پُرامن حل تلاش کر رہا تھا۔ امریکہ، سعودی عرب اوراسرائیل کو قریب لانے کیلئے کوشاں تھا۔ کل تک سعودی عرب اتنی مضبوط پوزیشن میں نہیں تھا۔فلسطینی کمزور نظر آرہے تھے۔ آج فلسطینوں نے خود کواسرائیل کے قدرے ٹکر کی طاقت ثابت کر دیا ہے۔ اب سعودی عرب فلسطینیوں کی الگ ریاست کے مطالبے کے حق میں مضبوط پوزیشن میں ہے۔
آئرن ڈوم کے بل پر اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اس نے اپنے علاقے کو اوپر اور سائیڈوںسے برقی شیلڈ لگا کر محفوظ کر لیا ہے۔ سائیڈوں سے فلسطینی داخل ہوئے ۔اوپر سے میزائلوں نے سارے دفاعی نظام کو اوکھاڑ اور بکھیر کر رکھ دیا۔اسرائیلی سفاکیت میں بارہ فلسطینی بچوں خواتین سمیت شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ کی چھوٹی سی پٹی کو اسرائیل ملیامیٹ کر سکتا ہے۔ کیا اس سے اسرائیل محفوظ ہو جائے گا؟ایسا ممکن نہیں لگتا۔مناسب حل دو ریاستی فارمولا ہی ہے۔فلسطینی جس طرح جدید ٹیکنالوجی میں ترقی کررہے ہیں وہ دن دور نہیں ان کے پاس بھی اسرائیل ایسی طاقت آجائے گی۔جو عالمی امن کیلئے کسی بھی وقت تباہی کا سامان کرسکتی ہے۔امریکہ سرکارکا بحری بیڑاجنگی زون میں پہنچ چکا ہے۔مسلم ممالک متحد ہورہے ہیں۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا محمد بن سلمان سے رابطہ ہوا ہے۔امریکہ عالمی امن کے جلتے ہوئے ڈھیر پر کھڑاہے۔ دنیا امید کرتی ہے کہ وہ اس پر مٹی کا تیل ڈالنے کے بجائے مٹی ڈال کے بجھانے کی کوشش کرے گا۔دوریاستی حل اسرائیل فلسطین اور عالمی امن کیلئے بہترین نسخہ ہے۔

ایران کے صدر کا سعودی ولی عہد سے رابطہ، فلسطین کی صورتحال پربات چیت -  ایکسپریس اردو

سعودی اسرائیل تعلقات: نئی جہتیں

گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکانات پر مبنی خبر عالمی وقومی میڈیا کی زینت بنی۔ ایک قومی اخبار کی ہیڈ لائن تھی۔”سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے:ایلی کوہن“۔ خبر میں ایلی کوہن کا نام میرے لیے توجہ کا مرکز بن گیا۔ خبر کی تفصیل میں ایلی کوہن کو اسرائیلی وزیر خارجہ بتایا گیا۔ مجھے یہ نام نصف صدی سے بھی کچھ قبل کے دور میں لے گیا۔ وہ بھی ایلی کوہن تھا، اس کا تعلق بھی اسرائیل سے تھا۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس سے اُس ایلی کوہن بارے جاننے میں آسانی رہے گی۔

سعودیہ کے بعد کئی مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے، ایلی کوہن
”یہ دمشق کے شہدا چوک کی 18مئی1965ءکی 19 مئی میں داخل ہوتی ہوئی رات ہے۔ چوک کا کونا کونا روشنیوں سے نہایا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے۔ دنیا کے جس صحافی نے بھی یہ منظر دیکھنے کی خواہش کی‘ اسے اجازت دیدی گئی، چوک کے درمیان کی تھوڑی سی جگہ خالی ہے۔ ہجوم کی آنکھیں اسی جگہ پر مرکوز ہےں۔ منظر کشی کےلئے کیمرے فٹ کئے جا چکے ہیں۔ ارد گرد عمارتوں پر مسلح کمانڈوز نے پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔ شام کی فضائیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ہجوم میں مال دار خواتین نے ہیرے جواہرات کے زیورات اور فر کے کوٹ پہن رکھے ہیں۔ رات ڈھلی ایک بجا، دو پھر تین۔ آخر کار وہ لمحہ آ گیا جس کا دل کی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا۔ 3بجکر 35 منٹ پر اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کو چوک کے وسط میں بنائے گئے گھاٹ پر لا کر پھندا کسا گیا، آناً فاناً جلاد نے اس کا قصہ تمام کر ڈالا۔ایلی کوہن نے ایک بزنس مین کی حیثیت سے شام کے تجارتی حلقوں، حساس اداروں اور ایوان صدر تک رسائی حاصل کی ہوئی تھی۔ اسکے صدر کی کابینہ اور جرنیلوں کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ صدر امین الحافظ کے وہ اتنا قریب تھا کہ صدر نے اسے وزیر دفاع بنانے کی پیشکش کی جسے وہ ٹال گیا۔صدر اس کی حب الوطنی، اہلیت اور قابلیت سے اس قدر متاثر تھے کہ اسے اپنا جان نشین بنانے پر بھی غور کیا۔ایلی کوہن کی جاسوسی کے باعث اسرائیل نے محض 6دن میں شام کو شکست سے دو چار کر دیاتھا۔ جب پکڑا گیا تو صدر امین الحافظ نے دنیا کا ہر دباؤ اور اسرائیل کے اس ایک جاسوس کے بدلے شام اور فلسطین کے جاسوسوں سمیت تمام قیدی رہا کرنے کی پیشکش مسترد کر دی“۔

شام کے سیاسی ایوانوں میں جگہ بنانے والا اسرائیلی جاسوس - BBC News اردو
اب آجاتے ہیں وزیر خارجہ ایلی کوہن کے اس بیان کی طرف، انہوں نے انٹرویو کے دوران کہا۔" سعودی عرب کے بعد اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے چھ یا سات ممالک کا تعلق ایشیاءاور افریقہ سے ہوگا۔ سعودی عرب کے ساتھ امن کا مطلب مسلم دنیا اور یہودیوں کے مابین امن ہے"۔ کچھ مسلم ممالک میں اسرائیل کے بارے میں شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ایلی کوہن نے چند روز قبل انکشاف کیا تھا کہ ان کی لیبیا کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے جس پر نجلا منقوش کو عہدے کے ساتھ ملک بھی چھوڑنا پڑ گیا تھا۔نجلا منقوش نے شاید اس حکومت سے اجازت نہیں لی تھی جو امریکہ کے زیر اثر ہے۔ایلی کوہن کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بیان پر نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا تھا کہ پاکستان اپنے مفادات کو دیکھ کر فیصلہ کرے گا ۔

از پوشش حداکثری بی‌نظیر تا شال حداقلی نجلا منقوش
آج اسرائیل بارے بہت کچھ پہلی بار ہورہا ہے۔ وزیر خارجہ ایلی کوہن نے 23ستمبر کو سعودیہ کے یوم ِ الوطنی پر مبارک باد دی۔ 26ستمبر کو وزیر سیاحت بائم سعودی عرب میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام انعقاد پذیر سیاحتی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر کا سعودی عرب کا پہلا باقاعدہ اعلان کر کے دورہ تھا۔ سعودی عرب کو عالمِ اسلام میں معتمد و معتبر ملک کی حیثیت حاصل ہے۔سعودیہ اہل اسلام کے لیے عقیدتوں کا مرکز و محور ہے۔ اکثر مسلم ممالک اسی طرف دیکھتے ہیں جدھر خادم حرمین شریفین دیکھیں۔ اسرائیل بارے سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی بڑے غور و خوض کے بعد آئی ہو گی۔جنگیں لڑ کر دیکھ لیا اب شاید امن کے ذریعے فلسطین کے حق میں معاملات استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں تو ساتھ ہی سعودیہ کا فلسطین کے ساتھ قربتوں میں مزید اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ جس روز اسرائیلی وزیر سیاحت کے سعودی عرب جانے کی خبرنشر اور شائع ہوئی اسی روز سعودی سفیر کی تعیناتی اور فلسطین کے دورے کی بھی خبر موجود تھی۔ یہ بھی شاید عجب لگے کہ فلسطینی سفیر نے فلسطین کا دورہ کیا، ایسا ہی ہواہے۔ فلسطین میں نائف بن بندرالسدیدی سعودی عرب کے غیر مقیم سفیر مقرر کئے گئے ہیں۔ان کا آفس اردن میں ہوگا۔وہ یروشلم میں غیر مقیم قون
صل جنرل بھی ہونگے ۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے بعد ہی سعودی سفیر کی تعیناتی ہوئی ہے۔ السدیدی کی طرف سے الگ فلسطینی ریاست کے قائم کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔19ستمبر کو اقوام متحدہ میںسترممالک اور تنظیموں کا اجلاس سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں ہوا جس میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کی گئی۔ 
اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے مذاکرات کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے معاملے پرشروع میں جوبائیڈن کے مخاصمانہ بیان پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ سعودیہ تعلقات کشیدگی نظر آئی ۔جوبائیڈن کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی پڑی۔اب تعلقات میںگرم جوشی پائی جا رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ ولی عہد کو جاتا ہے۔محمد بن سلمان کی مناسب اور معتدل خارجہ پالیسی کے باعث ہی ایران کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے۔


 اکیس ستمبر کوشہزادہ محمد بن سلمان نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا"۔ خلیجی ممالک (متحدہ عرب امارات، مراکش اور بحرین نے اسرائیل کوحالیہ ماہ و سال میں تسلیم کیا)کی طرح سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ ہم ہر روز قریب آرہے ہیں۔ ہمارے لئے فلسطین کا مسئلہ اہم ہے۔ فلسطینیوں کی زندگیوں کو آسان بنانا ہے۔"گویا سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ معاملات کومسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر بہتر بنا رہا ہے۔ یہ ان حلقوں کیلئے حوصلہ افزا پیشرفت ہے جو مسئلہ فلسطین کا ایسا حل چاہتے ہیں جس میں خونریزی کااحتمال نہ ہو۔چند روز قبل ستمبر کے آخرمیں امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا تھا کہ فریقین نے بنیادی فریم ورک ڈیل طے کر لی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ 
فلسطینیوں کو الگ ریاست چاہیے۔1967ءکے مقبوضات کی واپسی ان کا مطالبہ رہا ہے۔ معاملات اگرمذاکرات سے طے ہوتے ہیں تو بڑی کامیابی ہے۔ فلسطینی مطمئن ہوتے ہیں تو پاکستان کیلئے سعودی عرب کے ہمقدم ہونے میں کوئی عارنہیں ہوگی۔ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ یہ مسئلہ فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے اور اب سعودی عرب کی کاوش سے امکان نظر آنے لگا ہے۔

کسادیت : 100 ٹریلین ڈالر نوٹ

ڈالر کی پرواز سرِ دست نہ صرف رُکی ہوئی ہے بلکہ دوتین ہفتے سے نیچے بھی ہوئی ہے۔ یہ سب نگران دور میں ہوا مگر نگرانوںکا اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ سب آرمی چیف کی نگرانی میںپاک فوج کی طرف سے مافیاز پر ڈالے گئے ہاتھ کی بدولت ہوا۔ ورنہ تو جس طرح روپے کی بے توقیری ہو رہی تھی، ڈالر اسی طرح اڑان جاری رکھتا تو اب تک چار سو کو کراس کر چکا ہوتاجبکہ اگلے چند ماہ میں 5سوہزار اوردو ہزار اور پھر چل سو چل....!

اُدھر5ہزار روپے کے نوٹ کی بندش کی تحریک جاری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بڑا نوٹ بند ہو جائے تو رشوت میں کمی ہو سکتی ہے۔ آج کل ویسے ہی آئن لائن ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ ۔ رشوت کے خاتمے کے لیے نوٹوں کی بندش کی نہیں شعور موٹیویشن اور خصوصی طور پر تربیت کی ضرورت ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مضبوط ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ یہ عارضی اقدامات یا ارینجمنٹ ہے۔ جو بھی ہے سرِ دست اس سے کسی حد تک زندگی آسان ہوئی۔ میاں نواز شریف کی تیسری وزارت عظمیٰ کے وسطی دور میں ڈالر 112روپے کا ہوا۔ اسحق ڈار جیسے بھی ہوا اسے سو روپے سے بھی نیچے لے آئے۔ اس کی گراوٹ جاری تھی کہ کاروباری لوگوں نے کہرام برپا کر دیا۔ اودھم مچا دیا لہٰذا ڈالر کو وہیں بریکیں لگ گئیں اور کچھ دنوں بعد پھر بے لگام ہو گیا۔ اب بھی اگر ایسا ہوتا ہے تو معاشی بد حالی مزید منہ زور ہو جائے گی۔روپے کی بے توقیری کہاں جا کر رکے گی؟۔ جہان تک ملک کے دیوالیہ ہونے کا تعلق ہے اس سے پاکستان ہنوز دور ہے۔ ملک وسائل سے مالا مال ہے تاہم وسائل کے استعمال کے لیے دیانت اولین شرط ہے۔ فضولیات کا خاتمہ ثانوی سہی مگر غیر اہم نہیں ہے۔ کونسا وزیر اعظم واقعی بچت کی بات اور عمل کرتا تھا اور کون ڈرامہ بازی؟ اس سے ہم سب آگاہ ہیں۔ نگران وزیر اعظم کا وفد کے ساتھ جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے نیو یارک جانا فرض عین نہیں تھا۔ پھر یہ فرانس میں ایفل ٹاورڈنر یا لنچ انجوائے کرنے گئے۔ نیو یارک کے لگژری ہوٹل ....۔

Rupee continues to appreciate against US dollar - Hum NEWS

واپسی پر لندن میں 4روز بیٹھے رہے۔ ایسی فرصت اور شاپنگ، بجلی کے بلوں اور پٹرول کے ستائے عوام کو چِڑانے والی بات ہے۔
پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس بابت بیان بازی سیاسی سکورنگ کے لیے کی جاتی ہے مگر اسے ایمان کا حصہ بھی نہیں بتایا جا سکتا کہ ہم جیسے بھی وسائل کا اجاڑا کرتے رہیں دیوالیہ نہیں ہونگے۔ زمبابوے میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا۔ کرنسی گرتی گئی۔ 2008ءمیں زمبابوے کو کا ایک سوٹریلین نوٹ جاری کرنا پڑا تھا۔ ایک ٹریلین میں ایک ہزار بلین یعنی ایک ہزار ارب ہوتے ہیں۔ ایک ٹریلین لکھنا ہو تو ایک کے ساتھ 12صفر لگتے ہیں ، دس ٹریلین کے لیے 13اور سو ٹریلین ایک کے ساتھ14صفر لگا کر ظاہر کیا جاتا ہے۔ زمبابوے میں اب بھی کسا بازاری مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔
ہماری مصیبتوں کی دو جڑیں ہیں دونوں آپس میں پیوست ہیں اوپر سے ان دو جڑوں والے درخت پر آکاس بیل بھی چڑھی ہوئی ہے۔ایک کرپشن دوسری سیاسی عدم استحکام۔ جس نے قومی معیشت کوچوس لیا ہے۔ اسی وجہ سے بد حالی کی بھر مار مہنگائی کا طوماراور معاشی آلائشوں کا انبار نظر آتا ہے۔ ایسی صورت حال سے جنگی انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے مگر اس سے بھی آسان حل ہے۔ صرف اور صرف نظامِ عدل درست ہو جائے۔ انصاف کا دور دورہ ہو۔ 


ہمیں اٹل انصاف وہی لگتاہے جو ہمارے لئے موزوں ہو۔ حق میں فیصلہ آگیا تو سرخرو ، دوسری صورت میں عدلیہ کی تذلیل ججوں کی تضحیک کاتواتر۔قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے ہیں ان کی مدت ایک سال سے کچھ کم بچی ہے۔ اس دوران بہت کچھ ممکن ہے۔ عمر عطا بندیال صاحب کے فیصلوں اور بنچوں کی تشکیل پر پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوتا رہا وہ پاکستان کی تاریخ میں بدقسمتی کا باب ہے۔ طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ کئی فیصلے ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ بنچوں کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ آج کے چیف جسٹس صاحب نے اُن دنوںپریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت سے یہ کہہ کر اٹھنے کا فیصلہ کیا کہ اس کیس کے فیصلے تک کسی بھی بنچ میں بیٹھنا غیر آئینی ہوگا۔اس کیس پر اب بھی فیصلہ ہونا ہے مگر قاضی صاحب اب بنچوں میں بیٹھ رہے ہیں۔ان کی طرف سے اسی کیس پر فُل کورٹ بنا کر سماعت براہِ رست نشر کی گئی۔بندیال صاحب نجانے فل کورٹ کی تشکیل سے گریزاں رہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو ایک اور خط، ججوں کے تقرر پر اعتراض
ایک پارٹی کی طرف سے عمر عطا بندیال سمیت4 چیف جسٹس صاحبان کو متعصب قرار دیکر کردار کشی کی گئی یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔کچھ دن ہوتے ہیں سیاسی جلسوں میں پانچ کا ٹولہ کا نعرہ لگا کر دو موجودہ ججوں کی تصویریں لہرا دی جاتیں ہیں۔ جرنیلوں کا نام لے کر طعن اور دشنام کلچر بن چکا ہے۔ ہر دو ادواروں میں احتساب کا نظام موجود ہے ۔ کسی کی خواہشات پر کارروائی کیونکر ہو سکتی ہے۔ عدلیہ میں آج ایک "کھلارا" پڑا نظر آتا ہے اسے سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ گزرے کل تک قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں کوئی محاذ اور محاذ آرائی نہیں تھی۔ وہ سب کے لیے قابل قبول ہیں۔ قابل قبول نہ ہوں تو بھی وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال 'چیف جسٹس آف پاکستان' کے عہدے پر کل حلف اٹھائیں گے -
ہمارے عدالتی معاملات میں کچھ عرصے سے بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ ایک سابق وزیر اعلیٰ کی چودہ بار ضمانت ہوئی اور ہر ضمانت کے بعد دوسرے کسی کیس میں گرفتاری ہو گئی۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ نو مئی کے واقعات پر مقدمات درج ہوئے گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی لیڈر روپوش ہیں مگر کون مان سکتا ہے کہ یہ لوگ اداروں کی نظر سے اوجھل رہ سکتے ہیں ۔ 9مئی کے واقعات کے ذمہ دار کسی رو رعایت کے حقدار نہیں ۔ ان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق جو بنتا ہے وہ کیا جائے اور جتنا جلد ممکن ہے۔ جو بے گناہ ہیں ان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ ان کو سیاست کرنے کی اجازت ہو۔ شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔

Ali Mardan Bhatti @AliMardanBhatt1 - Twitter Profile | Sotwe

جب ان کی ہتھکڑی کی بات ہوتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو بھی ایسے ہی ہتھکڑی لگی تھی۔ اُن کو تو جہاز میں سوار کر کے ہتھکڑی والا ہاتھ سیٹ سے باندھ دیا گیا تھا۔ یہ انتقام کی بدترین مثال اور رسوا کرنے کی خواہش تھی مگر بے بس قیدی کوکڑیاں لگائیں یا کوڑے اس کی کیا تذلیل ہونی ہے۔ ویسے میاں نواز شریف نے فیصل آباد کے دو بلدیاتی افسروں کو بھی ہتھکڑی لگوائی تھیں۔ ان کو لگنے والی ہتھکڑی مکافات عمل ہو سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی شاید ایسا کوئی کام کیا ہو۔آج کی سیاسی اور معاشی صورت بہتر ہو سکتی ہے اگر نظام عدل واقعی اور اپنی روح کے مطابق رائج ہو جائے۔ قاضی صاحب کے پاس اس کا بہترین موقع ہے۔

Pak court issues bailable arrest warrant against Nawaz Sharif in land case

 

اینٹ کا جواب: پتھر یاپھول

پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ازلی اور ابدی دشمنی پالنے والا بھارت نہ صرف مواقع کی تلاش میں رہتا ہے بلکہ ممبئی،پٹھان کوٹ، پلوامہ حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے سانحات بھی خودبرپا کر دیتا ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کروانے میں بھارتی مودی سرکار پیش پیش رہی۔ گرے سے بلیک میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگایا۔ پاکستان کو دو لخت کیا، دہشت گردی سے دو چار کیا۔ امریکی پابندیوں میں اسی کا ہاتھ تھا۔ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلانا، ہمارے پڑوسی اور دشمن کا مطمحِ نظر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہندوستان کی طرف سے جو بھی پراپیگنڈا کر کے پاکستان کو بد نام، دنیا میں تنہا کرنے کی سازش کی جاتی ہے ایسی تمام بیماریات اورمُہلکات کے قلزم میں بھارت گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ مگر زبان درازی، تیزی طراری، سازش عیاری اور مکاری اس کی سرشت میں بھری ہے۔ وہ پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرا کر دنیا کو دھوکہ دینے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایسے دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہم غنیمت جانیں اگر اینٹ کا جواب اینٹ سے ہی دیدیا جائے۔ جہاں تو ایسے حاکم بھی رہے جو دشمن کی اینٹ کا جواب پھولوں سے دیا کرتے تھے۔ یہ بہرحال جب کی بات ہے تب کی بات ہے۔

کیا پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوسکتی ہے۔۔؟؟ - شفقنا اردو نیوز
نیو یارک ٹائمز نے19اگست1999ءکو یہ خبر دی تھی: انڈین فائٹر جیٹ نے پاک بحریہ کا اٹلانٹک ایئر کرافٹ مار گرایا جس میں12افراد سوار تھے۔ یہ طیارہ تربیتی پرواز پر تھا۔ اسے پاکستان کے علاقے میں پرواز کے دوران میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ یہی خبر ہندوستان ٹائمز نے بھی اُنہی دنوں شائع کی تھی۔ اس واقعہ پر ہماری سفارتکاری سرد رہی۔26فروری2019ءکو سب کو یاد ہے بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کی ۔ اگلے روزپاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دو جہاز گرا کر دیا ۔ جس کے حکم پر قومی و ملی غیرت کا عظیم الشان مظاہرہ ہوا وہ جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔پٹھان کوٹ حملے کا مقدمہ گوجرانوالا میں درج اور ممبئی حملوں کا الزام اپنی ہی فورسز پر لگانے والوں کی پروازیں ہیں آسماں پر....۔
رواں سال 8جون کو کینیڈا میں خالصتان تحریک کے لیڈر ہر دیپ سنگھ نجر کو قتل کر دیا گیا۔ یہ بھارت کو دہشت گردی میں مطلوب تھا۔ نجر بھارت سے کینیڈا منتقل ہوئے۔ ان کو پناہ دی گئی اور اپنا شہری بھی تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے قتل کی شاید مکمل تحقیقات کی گئیں۔ بھارت کو خالصتان تحریک کے زیر اہتمام دنیا بھر کے بڑے ممالک میں ہونے والے ریفرنڈم سے شدیداختلاف ہے۔ کشمیر اور پنجاب میں وہ سکھوں اور کشمیریوں کی نسل کشی کر سکتا ہے۔ دوسرے ممالک میں ایسے دھونس نہیں چلتی۔وہ دہشتگردی سے اپنے لیے خطرہ بننے والوں کو قتل کرا رہا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جی ٹوئنٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی آئے تھے۔ جہاں ان کے ساتھ مودی کا رویہ نامناسب رہا۔مودی حکومت خالصتان تحریک کی کینیڈا میں سرگرمیوں پر اعتراض کرتی رہی۔ جسٹن ٹروڈو کے وزیرخارجہ نے ہردیپ سنگھ کے قتل کا جواب مانگا۔ جسٹن ٹروڈو کے مودی انتظامیہ کی طرف سے جہاز میں خرابی پیدا کرنے کی خبریں نشر ہو چکی ہیں۔ ٹروڈو اور مودی کے مابین جو کچھ دہلی میں ہوا اس کی تپش کینیڈا میں محسوس کی گئی۔ پھر تو ٹروڈو پھٹ ہی پڑے۔ مودی سرکارپر اپنے ملک میں دہشتگردی کے ذریعے ہر دیپ سنگھ کے قتل کا الزام لگا کر، سفارتخانے میں تعینات”را“ کے افسرکو ملک بدر کر دیا۔ جواب میں بھارت نے بھی ایسا ہی کیا۔ دونوں ممالک کے تعلقات ماضی میں کسی بھی دور کے مقابلے میں بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ نہ صرف کینیڈا سے بھارت کے تعلقات بگاڑ کے عروج پر ہیں بلکہ بھارت کے آج تک کسی بھی مغربی ملک کے ساتھ ایسے بد تر معاملات کبھی نہیں رہے۔

خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما ہردیپ سنگھ نیجر کینیڈا میں قتل
بھارت کی طرف سے یہ کینیڈا میں کی گئی دہشتگردی کی بہت بڑی واردات ہے۔ آگے چل کر معاملات کو بھارت کو دہشتگرد ریاست قرار دینے پرمنتج ہو سکتے ہیں۔ سوال جہاں یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کہاں ہے؟۔
یہی موقع ہے بھارت کی غیر ریاست میں ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کا مگر ہمارے نگرانوں نے تو ڈیپ سلیپ میں رہنا ہی ہے۔ ریاست کہاں ہے؟ کیوں دشمن کو ایکسپوز کرنے کا موقع گنوایا جا رہا ہے ؟۔آج وزارتِ خارجہ نے جماہی لیتے ہوئے بس اتنا کہا۔"بھارت پاکستان کے اندر بھی کارروائیوں میں ملوث ہے"
حیران کن طور پر اس واقعہ سے صرف ایک ماہ قبل لاہور میں بھی ایسی ہی واردات ہو چکی ہے۔ پرم جیت سنگھ پنجوار کا قتل ہوا۔یہ بھی خالصتان لیڈر اور پاکستان میں چھپا ہوا تھا۔بھارت خالصتان تحریک کو دبانے کیلئے ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سکھوں کو مار اور مروا چکا ہے۔آخری ڈیڑھ دو سال میں پانچ بڑے لیڈر بیرون ممالک دہشتگردی کا نشانہ بنائے گئے ۔ان میں رپودمن سنگھ ملک بھی شامل ہے۔یہ 1985ءمیں ایئر انڈیا کو دھماکے میں تباہ کرنے میں مبینہ طورپر ملوث تھا،اس فلائٹ میں329مسافر ہلاک ہوئے۔دمن کو عدالت نے بے قصور قرار دیا مگر" را " نے کینڈا میں اسے جالیا۔ 
جسٹن ٹروڈو کاا چانک سے بھارت سے ٹکرانا بھی حیرتوں کے در کھول دیتا ہے۔ بھارت دو ارب صارفین کی مارکیٹ ہے جو ایک سکھ لیڈر کی خاطر کھودی جائے ؟۔ جسٹن ٹروڈو اپنی جگہ جتنے بھی درست ہوں، حق پر ہوں، سچ پر ہوں ، ان کے ہتھوڑا مار بیانات سے قربتیں دوریوںبلکہ دشمنی میں ڈھل جائیں، یہ کیا دانشمندی ہوئی؟۔معاملہ سفارت کاری کے ذریعے حل ہوسکتا تھا تھامگر بڑی تیزی اور تُندی دکھائی گئی۔یہ اچانک ایسا کچھ کیوں ہوا؟

کینیڈا اور بھارت کے مابین کشیدگی طول پکڑ گئی ٰوزیراعظم جسٹن ٹروڈوکومودی نے جی  20 سربراہی اجلاس کے دوران دو طرفہ ملاقاتوں میں دھتکاردیا تھا
 جی ٹوئنٹی کے اعلامیہ میں جو بائیڈن یو کرین جنگ میں روس کی مذمت کرنا چاہتے تھے۔گزشتہ سال بالی کانفرنس میں ایسا ہی ہوا تھا۔امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے جے شنکر سے بات کی۔شنکر نے کہا"یہ بالی نہیں نیو دہلی ہے۔روس کی مذمت نہیں کرینگے" جوبائیڈن یہ زخم لے کر دہلی سے گئے تھے ، انہوں نے اختتامی تقریب بھی مکمل نہیں کی تھی۔ مودی کے اب بُرے دن شروع ہو گئے۔ میری دو تین ایسے معاملات سے باخبر رہنے والے دوستوں سے بات ہوئی ، وہ کہتے ہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ نے مودی سے جو کام لینا تھا لے لیا۔ اب ان کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔ مودی جی ٹوئنٹی کانفرنس کے کریڈٹ پر اگلے سال ایک بار پھر الیکشن جیتنا چاہتے تھے مگر اس ناگہانی افتاد کا شکار ہو گئے۔امریکہ کے جال سے نکلنا مودی کیلئے ممکن نظر نہیں آتا۔ان کے ساتھ جو بھی ہونا ہے یہ الگ بحث ہے ، مودی کے انسانیت کا قاتل ہونے میں دورائے نہیں مگرانہوں نے روس کے خلاف مذمت کی ڈکٹیشن نہ لے کر خود داری اور خود مختاری ضرور دکھائی ہے۔ 

26 جنوری کو بھارتی پرچم کی توہین پر ملک کو بہت دکھ پہنچا: نریندر مودی |  Independent Urdu

دشمن مرے تاں خوشی نہ کرئیے.....اتے سجنڑاں وی مرجانڑا

پی ٹی آئی سے نفرت کیا آپ کو اتنا رزیل بنارہی ہے کہ آپ ایک معصوم بچے کی موت پہ ہوٹنگ کررہے ہیں؟؟

میں بھی پی ٹی آئی کی مخالف ہوں مگر شکر ہے پروردگار کا کہ اللہ نے انسانیت کے اعلیٰ مقام پہ فائز کیا ہے مجھے کچھ سمجھدار لوگ جذباتی کم عقل بےوقوف بھی کہتے ہیں اور میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ان جتنی سمجھدار (مکار)نہیں ہوں. میں پہلے سمجھتی تھی کہ اولاد والے ہی اولاد کا درد سمجھتے ہیں مگر نہیں. اس بچے پہ وہ لوگ بھی ہوٹنگ کر رہے ہیں جن کے اپنے بچے ہیں. فیس بک پہ کچھ سمجھدار لوگوں کی وال پہ ایسے فقرے گردش کر رہے ہیں.

"بچہ بیمار تھا مرگیا اس پہ اتنا واویلا کیوں؟"

"پنجابی کے بچے کے مرنے پہ تم لوگ واویلا کر رہے ہو بلوچستان کے لیے تو نہیں کرتے"

"بچے کا باپ دہشت گرد تھا "

"بچے کا باپ کروڑ پتی تھا"

"جان بوجھ کر شوکت خانم میں علاج نہ کروایا چاہتے تھے کہ بچے پہ سیاست کریں "وغیرہ.

پہلی بات اگر کوئی بیمار بھی ہو اور مرجائے کیا اس پہ ہوٹنگ کی جاتی ہے. بیمار کی موت پہ افسوس نہیں ہوتا؟ آپ کا بچہ بیمار ہو کیا آپ چاہیں گے وہ مرجائے؟. کون کہتا ہے کہ ہم لوگ بلوچستان کے لوگوں کا درد نہیں سمجھتے؟ میں نے بلوچستان کے لیے اتنا لکھا ہے کہ میری تو آئی ڈی ہی بند کروادی گئی تھی؟ بلوچستان کہاں ہے؟ کیا وہ پاکستان میں نہیں ہے ؟ بلوچستان میں کون دہشت گردی کروارہا ہے؟؟؟ بلوچستان کے لیے درد رکھنے والو بلوچستان کے مجرموں کے نام سرعام لو. ہر باشعور انسان ظلم پہ احتجاج کرتا ہے۔ آواز بلند کرتا ہے۔ ظلم چاہے جس پہ بھی ہو۔

بچے کا باپ دہشت گرد تھا۔

کتنا دہشت گرد تھا؟؟؟ کیا بچے کے باپ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کروایا؟ کیا بچے کے باپ نے سانحہ ساہیوال کروایا ؟ کیا بچے کے باپ نے گھر میں رکھی دس سالہ ملازمہ کے ساتھ ریپ کرکے اس کا قتل کیا؟ کیا بچے کے باپ نے دس سالہ رضوانہ کو تشدد کرکے موت کے منہ میں پہنچایا؟؟ کیا بچے کے باپ نے مساجد میں دھماکے کروائے؟ کیا بچے کے باپ نے پشاور سکول میں بچوں کو شہید کروایا؟؟ یہ وہی ملک ہے ناں جس میں یہ سب کچھ ہورہا ہے؟؟ ارے ان سانحات کے ذمہ داران کا نام لیتے تو تمہاری روح کانپتی ہے۔ 

بچے کا باپ کروڑ پتی تھا سو یہ بھی بچے کا جرم ہے کیا؟؟ اس کے باپ نے چوری ڈاکہ کرکے پیسے کمائے تھے؟ کیا اس پہ کوئی ایسا چوری ڈاکے کا کیس تھا؟ کیا بچے کے باپ نے عوام کے ٹیکس پہ باہر جاکر جائیدادیں خریدی ہیں؟ کیا بچے کے باپ نے کرپشن کی ہے؟

یہ وہی عدل پسند ملک ہے ناں جہاں رضوانہ کی مجرمہ کی ضمانت ہوچکی ہے۔ یہ وہی ملک ہے ناں جس نے سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کو انعامات سے نوازاہے۔ یہ وہی ملک ہے ناں جہاں سے ایک کرپشن کے مجرم کو جیل سے نکال کر وزیراعظم بنایا گیا۔ یہ وہی ملک ہے ناں جس میں جیل سے نکال کے ایک شخص کو سیدھا صدر بنایا گیا۔ یہ وہی ملک ہے ناں جس عورت کا باپ چور ہے اور وہ عوام کے ٹیکس سے سرجریاں کروا رہی ہے۔ یہ وہی ملک ہے ناں کہ کرپٹ بھاگ کے لندن عیاشیاں کررہا پے۔ یہ وہی انصاف پسند ملک ہے ناں جو اسحاق ڈار چور تھا۔ کرپٹ تھا۔ اسے چور کو لاکرخزانے پہ سانپ بناکے بٹھادیا۔ اگر کوئی کروڑ پتی ہے تو کیا اس کی اولاد تڑپ تڑپ کے مرجائے؟؟

اور یہ بات کہہ کر تو حد ہی ختم کردیتے ہیں کینہ پرور لوگ کہ بچے کا علاج جان بوجھ کر شوکت خانم میں نہ کروایا۔ باپ بچے پہ سیاست کرنا چاہتا تھا۔

ہائے! کوئی جان بوجھ کر بھی بھلا اپنا بچہ مارنا چاہتا ہے ؟؟

ہائے! پتھر دل لوگو! جو کہہ رہے ہیں کہ بھلا کوئی بچہ باپ کی جدائی میں بھی اس حال میں پہنچ سکتا ہے۔ وہ بے حس لوگ ہیں۔

کل کی بات ہے میری چھ سالہ ربیع الایمان کو اس کے بہن بھائی پیار سے چھیڑ رہے تھے، وہ میرے پاس دوسرے کمرے میں آئی میں موبائل پہ لکھ رہی تھی۔ اس نے مجھے متوجہ کیا کہ بہن بھائی چھیڑ رہے ہیں۔ میں نے جب اس کی نہ سنی تو اس نے احتجاجا میرے پیٹ میں ہلکا سا مکا مار دیا۔ میں نے جان بوجھ کر ایکٹنگ کی اور آنکھیں بند کرلیں۔ پہلے تو اس نے آہستہ سی مجھے امی کہا۔ میں نہ بولی تو اس نے زور زور سے امی امی کہا میں پھر بھی آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی۔ تو چیخ چیخ کے رونے لگی۔ ماں آنکھیں کھولیں۔ پھر بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئی اور بہن بھائیوں کو لیکر آئی ماما کیوں نہیں بول رہی میں نے تو تھوڑا سا مکا مارا تھا۔ میری ماما کیوں آنکھیں نہیں کھول رہیں۔

میں نے آنکھیں کھولیں وہ دوڑ کے آئی مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کا وجود کانپ رہا تھا۔ چہرہ سہما ہوا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ میں مزید دس منٹ آنکھیں نہ کھولتی تو نجانے اس کا کیا حال ہوتا۔ اس کی اس حالت نے مجھے اتنا رلایا میں اسے خود سے لپٹائے روتی رہی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں مرگئی اور ربیع مجھے ایسے پکارتی رہی تو کیا ہوگا؟؟اس سے آگے سوچوں تو روح کانپ جاتی ہے۔ یہ تو چھ سال کی ہے میری سب سے بڑی دعاءالخیر تیرہ سال کی ہے۔ میں جب بھی بیمار ہوتی ہوں وہ میرے ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ اس کے ہاتھ بالکل اس طرح کانپ رہے ہوتے ہیں جیسے ویڈیو میں اس بچے کو کانپتا دکھایا گیا ہے۔

سو خدا کی لاٹھی سے ڈرو۔ یہ بے آواز ہے۔ جن کی محبت میں تم لوگ مردہ بچے پہ ہوٹنگ کررہے ہو جب تم پہ وقت آیا ناں تو وہ تھوکیں گے بھی نہیں۔ کاپی پیسٹ کرتے وقت تھوڑا اللہ کا خوف بھی کرلیا کرو۔ بلوچستان والے تو نہ دہںشت گرد ہیں نہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز، ان پہ کیوں قیامت ڈھارکھی ہے آپ کے عزیزوں نے؟؟؟؟

یہاں سچ بولنے پہ زبان کٹتی ہے۔ سچ لکھنے پہ گردن کٹتی ہے۔ یہاں گونگے بہرے اندھے بن کے رہو۔ یہاں وہی عیش میں ہے جو خوشامدی ہے۔ دل میں اتنا کینہ بھرا ہے کہ جس نے دماغ کی کھڑکیاں بند کردی ہیں۔

بچے کے باپ کو پکڑا گیا اوکے۔ وہ دہشت گرد تھا۔

بچے کی ماں بھی دہشت گرد تھی؟ اسے کیوں پکڑا؟؟

بچے کی دادی بھی دہشت گرد تھی ؟؟ اسے کیوں پکڑا؟

فرض کیا آپ ہی سچے ہو، بچہ بیمار تھا، پھر تواور بھی بچے پہ رحم کیا جانا تھا پھر تو اور بھی ظالم ہو۔ بیمار بچے کے سامنے بچے کی ماں اور دادی سے بے جا تحقیق و تفتیش ۔۔۔۔۔ یہ کہاں کا قانون ہے؟ جو مجرم تھا وہ جیل میں تھا گھر میں کیا لینے آتے تھے عورتوں کے پاس ؟؟

خیر اگر تم لوگوں میں اتنی غیرت ہوتی تو آج ہم دلدل میں نہ دھنسے ہوتے۔ چور بازاری، ملاوٹ، لوٹ مار، قتل وغارت،ریپ کرپشن ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم نہ ہوتا۔ تم لوگ کبھی متحد نہ ہونا بلکہ آواز اٹھانے والے کی آواز بھی دبا دینا۔ بزدل قوم۔

اس کے ساتھ ہی میں بچے کے باپ سے بھی کہوں گی کہ ملک کے املاک کو نقصان پہنچا کر سڑکیں بلاک کرکے انقلاب نہیں آتے۔ نہ ہی اس سے آپ کے لیڈر کو فائدہ پہنچتا ہے۔ لیڈر اتنےاچھے نہیں ہیں کہ ان پہ اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی عزت، اپنے بچے قربان کردو۔ اگر یہ لٹیرے اتنے اچھے ہوتے تو ملک کب کا سنور نہ چکا ہوتا ۔ انھی لیڈروں گیدڑوں نے تو برباد کیا ہے جو بھی آیا لوٹ گیا جس کو جتناموقع ملا اتنا ہی کھاگیا ۔۔۔۔

جی ٹونٹی : قرض اور الیکشن مرض

پاکستان کے پڑوس میں جی ٹونٹی کانفرنس ہوئی۔اس کے بطن سے چین کے سی پیک کی مخالفت زہریلے ناگ کی مانند نکلی۔ بھارت سی پیک کی شدید مخالفت کرتا آیاہے۔ امریکہ کو بھی اس کے خلاف بیان بازی پر آمادہ کیا۔جی ٹونٹی اجلاس میں ایک اور ”سی پیک“ بنانے کافیصلہ کیا گیا جو ایشیا یورپ اور افریقہ براعظموں کو شاہراہوں کے ذریعے مربوط کریگا، چین کے سی پیک کے مقابلے میں امریکہ انڈین سی پیک۔


 اس سربراہی کانفرنس میں چینی اور روسی صدور شریک نہ ہوئے۔بائیڈن کو دلہے کا سہرا سجانے کا موقع مل گیا۔ سعودی ولی عہد کانفرنس کے خاتمے کے بعد بھی بھارت میں رہے۔ مودی، محمد بن سلمان ملاقات میں ایک سو ارب ڈالر کے 50معاہدے طے ہوئے۔ دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کے لیے والہانہ پن کا اظہار کیا۔ بھارت دنیا کے لیے ڈیڑھ ارب لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ اس کی اکانومی اب دنیا میں چوتھے نمبر پر آ گئی ہے۔ برطانیہ چوتھے سے پانچویں نمبر پر چلا گیا۔ بھارتی زرمبادلہ کے ذخائر600ارب ڈالر، ہمارے دو سال میں17سے تین ارب پر آگئے۔ اب دس 12ارب ڈالر تک پہنچے ہیں۔ بھارت بڑی مارکیٹ ، پیچھے والا پَلّو،ہم سامنے کا دامن اور نیچے والا ہاتھ ہیں۔
 ہمارے برادر مسلم ممالک منظر نامے کو اخوت کے جذبے کی رو میں بہہ کر نہیں حقیقت کی نظر اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ محمد بن سلطان جاتے اور آتے ہوئے ہماری فضاؤں سے گزرے ۔ ہم دیدہ و دل فراش راہ کئے رہے۔وہ چلے گئے ہم رہے وضو کرتے۔امارات کے صدر محمد بن زید ہمیں ہماری اہمیت جنوری میں باور کرا گئے تھے جب وہ رحیم یار خان میں موجود تھے۔ اسلام آباد آنے کاعندیہ دیا۔ “امپورٹڈ حکومت“ نے اسلام آباد کو اس قدر سجایا اور سیکورٹی کے انتظامات کئے جس کی نقل مودی سرکار نے جی ٹونٹی کانفرنس کے موقع پر دہلی کو سنواراور حصار میں لے کر کی۔ اسلام آباد میں چھٹی کا اعلان کیا گیا مگر امارات کے صدر کو اسلام آباد میں ”اکھیاں اڈیکتی“ ہی رہ گئیں۔
میاں نواز شریف نے جی ٹونٹی کانفرنس بارے بڑا دلچسپ بیان دیا ہے۔ ”2017ءکا تسلسل رہتا تو یہ جی20اجلاس پاکستان میں ہوتا“۔ آج کے تناظر میں تو یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اسے میاں صاحب کیسے ممکن بناتے؟۔ مودی کے ساتھ میاں صاحب کے خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔آموں کا تحفہ،ساڑھیوں کا تبادلہ۔ اُدھر حلف برداری اِدھر شادی میں شرکت۔ 
جی-20 میں امریکہ، روس، چین، انڈیا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں مودی کی خصوصی دعوت پر کانفرنس میں بنگلہ دیش، مصر، نائجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس نے مہمان اور مبصر کے طور اس شرکت کی۔میاں نواز شریف کی حکمرانی کا تسلسل رہتا تو پاکستان یقینی طور پر مبصر تو ضرور ہوتا۔ پاکستان بھارت تعلقات اس نہج پر بھی جا سکتے تھے کہ مودی اپنی باری میں محمدنواز شریف کے پاکستان کو دے دیتے۔

بھارت کی جی ٹوئنٹی کی صدارت کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق پہلے  ورکنگ گروپ کی میٹنگ ممبئی میں شروع ہورہی ہے۔ | Urdu
 میاں نوا ز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے کی ایک وجہ ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ بھی تھا ۔یہ جنرل راحیل شریف کو پسند نہ آیا تو ان کی لٹیا ڈبونے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا جو جنرل باجوہ کے دورِ مارشل میں انجام پذیر ہوا۔ بھارت کے بارے میں جنرل باجوہ کی سوچ بھی جب وہی ہوگئی جو میاں صاحب کی تھی تو انہوں نے" سائڈ بدل لی"۔پھراوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہی نہیں بلکہ اندر والے باہر اور باہر والے اندر ہو گئے۔
آج الیکشن کی تاریخ کا اعلان قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ نوے روز میں الیکشن کی کل مخالفت کرنے والے آج آئین کھول کر بلندآہنگ ہیں ۔ نوے روز کو ڈیڑھ دو سو روز تک لے جانے والے بھی آئین اور ”روایت“ کا سہارا لے رہے ہیں۔ کچھ کو مسائل کا حل دو تین سال کے عبوری سیٹ اپ کی تشکیل میں نظر آتا ہے۔ اعلان کس نے کرنا ہے۔ کوئی نئے قانون کا حوالہ اور کسی کو پرانے قانون میں قوی دلیل نظر آ تی ہے۔ کوئی نئے قانون کو عدالتوں سمیت قانون ہی نہیں مانتا۔عدالت کا بر سرسبیل تذکرہ آ گیا۔ عدالتوں کی کون مانتا ہے ؟۔
صدر عارف علوی اپنی مدت پوری کر چکے۔ انتخابی کالج مکمل ہونے اور نئے صدر کے انتخاب تک وہ صدر ہیں۔ سرِ دست تو صدر ہیں ،بھلے عبوری ہی سہی۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے حوالے سے ان سے کہیں سے دباؤڈالا جا رہاتھا اور کہیں سے خبردار کیا جا رہا ہے۔ نگران حکومت وزیر اعظم اور وزیر قانون سمیت ان کو اپنے اعلان کے اختیار سے تہی قرار دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی یہی سمجھتا ہے۔ مسلم لیگ ن صدر علوی کو پی ٹی آئی کا ورکر جبکہ پی ٹی آئی نے اعلان نہ کرنے پر آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا تھا۔صدرنے عواقب و نتائج کے جائز لیتے ہوئے ”معتدل“ سا بیان جاری کردیا۔الیکشن ۶ نومبر کو ہونے چاہئیں۔یہ حکم نامہ نہیں تجویز ہے۔اگر حکم جاری کرتے تو کیا گارنٹی تھی کہ اس حکم نامے کی آتما یکم اپریل کو الیکشن کے انعقاد کے حکم نامے کی طرح نہ رُلتی۔اب تجویز کی بھی دھول اُڑائی جارہی ہے۔الیکشن نہ ہوا قومی جسد کو لگا مرض ہوگیا۔

پوری قوم دہشتگردی کے مکمل خاتمےکیلئے متحد ہے: صدر عارف علوی
لاہور ہائیکورٹ کے11ججوں کو 36کروڑ کا ہاؤس فنانسنگ سکیم کے تحت بلا سود قرض دیا جارہا ہے۔ اس پر اعتراض ، احتجاج اوررٹیں ہو رہی ہیں۔ علمائے کرام سودی کاروبار کو حرام قرار دیتے ہیں۔ یہ قرضہ بلا سود ہے۔ چلیں یہاں تو اللہ کے ساتھ جنگ سے پَرے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض سے ترقیاتی کاموں کے لئے کل تک کے ارکان قومی اسمبلی کو ایک ایک ارب روپے دیئے گئے ، ناقابل واپسی۔ ججوں نے یہ پیسے قسطوں میں لوٹانے ہیں۔ دس گیارہ یا بارہ سال میں ڈھائی لاکھ ماہانہ قسط ہے۔ ججوں کی بڑی بڑی تنخواہیں اور پینشن ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قسطیں ادا کرتے رہیں گے۔ ان کی دیانت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ اور دیگر بھی کئی جج دیانتداری کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہیں۔

سیشن جج کا اپنے ہی سول جج اور اس کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ

ججوں کی دس لاکھ سے زاید تنخواہ اور دیگر مراعات اس لیے ہیں کہ وہ دو نمبری پر مائل نہ ہوں۔ کسی بھی جج کے لیے ارب پتی بن جانا بڑا آسان ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں۔ یہ11جج صاحبان ایک ایک کیس سے کئی گھروں کی تعمیر جتنی رقم بٹور سکتے ہیں۔ انہوں نے جائز راستہ چنا۔ قرض لے رہے ہیں۔ ایسا باقی اداروں کے ملازموں کے لیے بھی ہو جائے تو بہتر ہے۔اگر نہیں تو ان کو بھی محروم رکھنا ان کو کوئی اور راستہ دکھانے والی بات ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے راستے پر پختہ کار اور پکے کردار کے مالک نہیں چلتے۔