اہم خبریں

لاہور اور کراچی کا ایک ایک پاسپورٹ دفتر 24 گھنٹے کھلے گا: وزیر داخلہ

لاہور اور کراچی کے دفاتر کو 24، 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ کیوں کرنا پڑا ؟ ملک بھر میں پاسپورٹ کی چھپائی کا عمل ایک بار پھر متاثر ہوگیا تھا، جبکہ دستاویزات کی طباعت کا بیک لاگ ایک بار پھر 2 لاکھ سے تجاوز کرگیا۔دسمبر اور جنوری میں پاسپورٹ کے لیے اپلائی کرنے والوں کو تاحال پاسپورٹ نہیں مل سکے، دسمبر اور جنوری میں پاسپورٹ کے حصول کے لیے فارم جمع کرانے والوں کو پاسپورٹ حج آپریشن مکمل ہونے کے بعد دیئے جائیں گے۔

حج آپریشن کی وجہ سے پاسپورٹ کا عمل متاثر ہوا ، کہا گیا ہے کہ صرف حج پر جانے والے افراد کو اس وقت ترجیح دی جارہی ہے۔پہلی ترجیح عازمین حج کو دی جانی چاہیے مگر باقیوں کو نظر انداز کر دینا  بھی قرین انصاف نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح سے معاملات چل سکتے ہیں۔معمولات کو جام کر کے نہیں رکھا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وزیر داخلہ تھے۔ چند ماہ میں پاسپورٹ کا بحران اونچائیوں پر نظر آنے لگا۔ وہ کسی کو پوچھتے  نہ کوئی ان کو پوچھتا تھا۔ پاسپورٹ بنوانے والے ذلیل و خوار ہو کے رہ گئے تھے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت بنی۔وزیر داخلہ چوہری نثار علی خان نے لاتوں کے بھوتوں کی دم پر پاؤں رکھا تو دو مہینے میں دم سیدھی ہو گئی۔محسن نقوی کو کام اور کارکردگی کی وجہ سے محسن سپیڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے پاسپورٹ کا بحران سر اٹھا لے۔  

یہ  حیران کن بلکہ پریشان کن ہے۔ اصل میں ملک میں بہت زیادہ بگاڑ ہے اور پاسپورٹ بنانے والوں کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔محسن نقوی اپنے ہاتھوں سے راشیوں کو پکڑتے ہیں اور نکال باہر کرتے ہیں۔ یہاں پہ اوور سپیڈ کی ضرورت ہے ۔حجاج بن یوسف نہ بنیں مگر نواب آف کالا باغ اور غلام مصطفی کھر کی مثالیں ضرور سامنے رکھیں۔ذخیرہ اندوزوں نے گندم کا بحران پیدا کر دیا۔ نواب نے ڈیلروں  کو بلا لیا۔ ان کو صرف یہ کہا کہ آج میں گندم کی قیمت 22 روپے سن رہا ہوں کل20 روپے من  ہو،ایسا ہی ہوا غلام مصطفی کھر گورنر بنے تو انہوں نے کہا کہ پنجاب میں کل سے کسی کی کوئی بھی چوری ہو جائے وہ گورنر ہاؤس آکر وصول کر لے۔ واقعی اس دور میں پنجاب سے چوری جڑوں سے ختم  ہو گئی تھی۔ محسن نقوی دھیرے سے کام کرتے ہیں بڑھکیں نہیں مارتے اور ضرورت بھی بڑھک سنگھ  بننےکی نہیں ہے۔ ضروت کھڑک سنگھ کی ہے۔ان حالات میں کھڑکیاں کھڑکانے والا کھڑک سنگھ بننا  پڑے گا۔

سوچنے پر کوئی پابندی نہیں

امیر المومنین سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا ۔۔۔ ہر آدمی کا اپنا سچ ہوتا ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار۔۔۔ہرشخص سچ کو پسند کرتا ہے مگر وہ سچ جو اس کی مرضی کا ہو۔۔۔  ہمارے سپہ سالارفرما رہے تھے۔۔۔ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے،ہمیں  اپنی آئینی  حدودمعلوم ہیں۔
کیا  سپہ سالار کاخطاب سننے والے  کیڈٹس دل میں مسکرا  ئےنہیں  ہونگے ؟۔۔۔ سوچنا تو پڑتا ہے۔۔
آگے چلتے ہیں۔۔۔ وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے۔۔۔ ہمارا پاور سیکٹر تباہ ہو چُکا ہے۔۔۔ ہماری ہاں بجلی کی جتنی چوری ہوتی ہے شائد کہیں نہ ہو۔۔۔ ہمارے پاس فقط اشرافیہ کا خیال کیا جاتا ہے اور کسی اور کا نہیں۔۔۔۔ ہم اُتنا ٹیکس بھی نہیں جمع کر پاتے اور اُس کا چار گُنا زیادہ ہمارے خرچے ہیں۔۔۔۔ ہم شائد کبھی اس بُحران سے نہیں نکل پائیں۔۔۔۔ ہمارا قرضہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ ایک موت کا شکنجہ ہے۔
کیا  عالمی اقتصادی فورم  میں  شہباز شریف کاخطاب سننے والے عالمی رہنما دل میں مسکرا ئے نہیں ہونگے؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔۔
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ن  لیگ کے رکن اسمبلی حنیف عباسی کی اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منہ ماری ہوگئی،عباسی صاحب فرمانے لگے ’’ میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں۔۔۔’’آپ نے گندم سکینڈل میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے‘‘۔۔۔ آگے سے کاکڑ صاحب بولے۔۔۔’’ میں فارم47پر بول اٹھا تو پوری ن لیگ منہ چھپاتی پھرے گی ‘‘۔۔۔
کیا دونوں رہنماؤں کا سچ سن کر ہوٹل میں بیٹھے لوگ دل میں  مسکرائے نہیں ہونگے؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔
سول خفیہ ادارے کی رپورٹ۔۔۔ بلوچستان کے پانچ اضلاع کے چھ زمینی اور سمندری راستوں سے یومیہ 89 لاکھ  لیٹر ایرانی تیل پاکستان سمگل کیا جارہا ہے۔۔۔ سمگلنگ کیلئے ضلع چاغی کا راجے، ضلع واشک کا جودر، پنجگور کا جیرک اور چیدگی اور ضلع کیچ (تربت) میں عبدوئی کا زمینی راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔ گوادر میں جیونی کے قریب کنٹانی کا واحد سمندری راستہ بھی  شامل ہے۔۔ سمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں منتقل کیا جاتا ہے۔۔۔تیل منتقلی کیلئے پی ایس او کے کنٹینرز بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔۔۔ سینکڑوں آئل ٹینکر لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لے کر بلوچستان کے علاقے اوتھل اور لسبیلہ سے کراچی اور سندھ  لیکر جاتے ہیں۔۔۔سمگلنگ میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان،سابق وزرا سمیت105 بڑے سمگلر اور100 اہلکار شامل ہیں۔۔۔وزیراعظم نے رپورٹ ملنے پر کہا ہے سمگلنگ کا کاروبار بند کرنا ہوا ہوگا اور ملوث افرادکیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔۔۔۔
کیا وزیراعظم کا حکم سن کر سرحدوں کی حفاظت کرنے والے دل میں مسکرائے نہیں ہونگے ؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔
جونہی ملک کے کسی حصے میں دہشگردی ہوتی ہے،حکومت کی طرف ایک ہی  ’’ رٹیا    رٹایا‘‘بیان آتا ہے،دہشگردوں کو ایسا سبق سکھائیں گے،ان کی نسلیں یاد رکھیں گی،ا نکی جڑیں کاٹ دینگے۔۔۔ان کا نام ونشان مٹا دینگے۔۔۔شہدا کا خون رائیگاں نہیں جانےدینگے۔۔۔خون کے ایک ایک قطرے کاحساب لیا جائے گا۔۔۔
کیا اعلیٰ حکام کے ان بیانات کو سن کو دہشتگرد مسکراتے نہیں ہونگے ؟سوچنا تو پڑتا ہے۔
زرداری صاحب جب سے صدر بنے،خاموش ہی بیٹھے ہوئے ہیں،پہلی بار’’خواب خرگوشی‘‘ سے جاگے اور کراچی پہنچ گئے۔۔۔اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کرلیا۔۔۔ سندھ میں  قیام امن   کیلئے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔۔۔ڈاکوؤں  کیخلاف آپریشن کرنے پر بھی غور کیاگیا۔۔۔زرداری صاحب  مزید بولے،سندھ میں زمینوں پر قبضےکرنیوالوں کوبرداشت نہیں کروں گا۔۔۔
کیا زرداری کا حکم سنتے ہوئے کچے کے ڈاکو مسکرائے نہیں ہونگے ؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔
نوازشریف چین کا دورہ کرنے گئے،ہمارے  درباری دانشور،اینکرز،کالم نگار فرما رہے تھے،میاں صاحب نے پاکستانی معیشت کا بیڑہ اٹھا لیا ہے،بس اب پاکستان کے سنہری دن لوٹ آئینگے،دودھ اور شہید کی نہریں  بہنے لگیں گی۔۔۔خوشحالی کا دور ہوگا۔۔۔غریب،غریب نہیں رہیں گے۔۔۔دیگر سیاسی جماعتو ں کا ملک میں صفایا ہوجائے گا۔۔۔مریم نواز اگلی بار پکی وزیراعظم۔
کیا نواز شریف اپنے نواسے جنید کےساتھ بیجنگ میں سٹیل ملز کا دورہ کرتے ہوئے دانشوروں کے تجزیئے سن کر مسکرائے نہیں ہونگے؟سوچنا تو پڑتا ہے۔
مریم نواز انتہائی سادہ خاتون ہیں،800 والا سوٹ پہن لیتی ہیں۔۔۔ تین ماہ کے قلیل عرصہ میں پنجاب میں تاریخی کام کرڈالے۔۔۔مریم کے ڈکشنری میں ’’ ناں ‘‘ کا لفظ ہی نہیں، وہ ایک ذہین ،محنتی اور دلیر خاتون ہیں۔۔۔کتابیں پڑھنے کا انہیں بہت شوق ہے۔۔۔
ویسے جب عظمیٰ بخاری ’’شامیانے  رفو‘‘ کرتی ہونگی ،کیا مریم نواز سن کو مسکراتی نہیں ہونگی؟سوچنا تو پڑتا ہے۔
آپ بھی سوچاکریں،سوچنے پر کوئی پابندی نہیں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا (دی ٹیلی گراف میں شائع ہونیوالا عمران خان کا آرٹیکل)

اب ان کے بس میں مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا۔ آج پاکستان اور اس کے عوام ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ تقریباً دو سال پہلے میری حکومت کے خلاف ایک انجینیئرڈ ووٹ عدم اعتماد پیش کیا گیا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ایک حکومت وجود میں آئی۔ اس کے بعد سے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی براہ راست رہنمائی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے سیاسی ماحول سے میری پارٹی کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔

ہمارے انتخابی نشان، ظلم، تشدد اور انکار کو بڑے پیمانے پر دستاویزی شکل دی گئی ہے، لیکن فوج اور اس کی کٹھ پتلیوں کے طور پر کام کرنے والی بے اختیار سویلین قیادت کے لیے کچھ بھی کام نہیں آیا۔ 8 فروری 2024 کو پاکستان کے عام انتخابات نے ان کے ڈیزائن کی مکمل ناکامی کو ظاہر کیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ووٹروں کی اکثریت پارٹی کے نشان سے رہنمائی کرتی ہے وہاں کوئی ایک انتخابی نشان نہیں ہے، لوگ "آزاد" کے طور پر کھڑے ہونے کے باوجود، میری پارٹی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدواروں کے لیے باہر آئے اور بھاری اکثریت سے ووٹ دیا مختلف انتخابی نشانوں کے ساتھ ۔ پاکستانی عوام کی طرف سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے خلاف یہ جمہوری انتقام نہ صرف عوام کی طرف سے قومی بے عزتی تھی بلکہ 9 مئی 2023 کے سرکاری بیانیے کو بھی مکمل طور پر مسترد کرتی تھی، جب پی ٹی آئی کے حامیوں پر جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے۔

کریک ڈاؤن ، فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کا۔ بدقسمتی سے، عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنے کے بجائے، فوجی اسٹیبلشمنٹ غیض و غضب کی لپیٹ میں آگئی اور ہارنے والوں کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کی گئی۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی یہی ووٹ ٹمپرنگ دیکھنے میں آئی۔ جس کے نتیجے میں آج پاکستان ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ عوام نے ریاستی انتخابی سازشوں اور نہ صرف پی ٹی آئی کی قیادت بلکہ اس کے کارکنوں کے جبر، قید و بند اور اذیتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ عسکری قیادت کو اس سطح پر کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جو ہماری تاریخ میں اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ حکومت ہنسی کا سٹاک ہے۔ مزید ظلم اور تشدد ریاست کا ردعمل صرف پارٹی کارکنوں پر ہی نہیں بلکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں پر بھی زیادہ ظلم اور تشدد کو ہوا دیتا ہے۔

ایکس پلیٹ فارم پر مکمل پابندی کے ساتھ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ عدلیہ کے آزادانہ کام کاج کو ہر سطح پر تباہ کرنے کی منظم کوشش شاید سب سے بدتر پیش رفت ہے۔ ججوں کو بلیک میلنگ اور خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے سمیت ہر طرح کے دباؤ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر، جھوٹے الزامات پر ہمارے مقدمے چلائے جاتے ہیں جس میں کسی مناسب دفاع کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی ملک کے قانون اور آئین کی کوئی فکر ہوتی ہے۔ پاکستان (سی جے پی) اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس غیرجانبدارانہ انصاف فراہم کرنے میں ناکام پائے گئے ہیں۔ لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ارکان عدلیہ کی آزادی کو تباہ کرنے کی کوشش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ بہادر ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے اپنے اہل خانہ سمیت ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے واقعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مخصوص مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے اور تفصیلات دی گئی ہیں۔ ہماری تاریخ میں یہ بے مثال ہے - اگرچہ غیر رسمی طور پر، بہت سے لوگ جانتے تھے کہ سینئر عدلیہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن ان ججوں کی طرف سے اس طرح کا خط آنا مایوسی، غصے اور مایوسی کی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔

عدالتی امور کی افسوسناک حالت چیف جسٹس کی طرف سے دکھائی جانے والی ہچکچاہٹ سے ظاہر ہوتی ہے، جس نے بالآخر عمل کرنے پر مجبور محسوس کیا لیکن سپریم کورٹ کے فل بنچ کی سماعت کرنے اور چھ ججوں کی طرف سے نامزد کردہ افراد کو طلب کرنے کے بجائے، انہوں نے عدالتی امور پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی۔ چھ جج مؤثر طریقے سے کٹہرے میں ہیں۔ بحران میں گھری ہوئی معیشت، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور سیاسی طور پر ناراض عوام اپنے انتخابی مینڈیٹ کو چوری کرنے اور معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہونے کے ساتھ، ریاست الگ تھلگ کھڑی ہے۔ اپنی سنگین غلطیوں کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے پاکستان اس نازک موڑ پر پہنچا ہے اور ناقدین کے خلاف جبر اور تشدد کے اپنے منتر سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے، ریاست اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر یہ 1971 میں چلی تھی، جب اس نے مشرقی پاکستان، پھر بنگلہ دیش کو کھو دیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ، یہ دہشت گردی میں اضافے اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بیگانگی کو دیکھ رہا ہوں جہاں جبری گمشدگیوں کا معاملہ شدت سے بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کی سرحدوں پر، بھارت پہلے ہی پاکستان کے اندر قتل و غارت گری کا اعتراف کر چکا ہے اور افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد بدستور غیر مستحکم ہے۔ فوجی مقاصد کے لیے امریکا کو فضائی حدود تک رسائی اور اس سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی کے بدلے امریکا سے بلاشبہ حمایت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی توقع، امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق کے طریقوں سے متعلق تازہ ترین رپورٹس کی اشاعت کے بعد پنکچر ہوگئی ہے جس میں نمایاں کیا گیا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیاں ایک بار پھر، جب عوام کے ساتھ تصادم ہو تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی حمایت پر انحصار کرکے نجات حاصل کرنے سے پاکستان کے لیے کوئی استحکام نہیں ہوگا۔ اس بحران سے نکلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ عوام کا مینڈیٹ بحال کیا جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جن میں فوجی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کی آئینی فعالیت کو بحال کیا جائے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے میرے خلاف ہر ممکن کوشش کی۔ اب ان کے لیے بس مجھے قتل کرنا ہے۔ میں کھلے عام کہہ چکا ہوں کہ اگر مجھے یا میری اہلیہ کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار جنرل عاصم منیر ہوں گے۔ لیکن میں نہیں ڈرتا کیونکہ میرا ایمان مضبوط ہے۔ میں غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔

عارضی قحط سالی: دائمی خوش حالی

پاکستان میں اناج کے بحران آتے رہے ہیں۔ ان میں سے1953ءکا بحران قحط  اور قحط سالی کے قریب قریب تھا۔ پاکستان میں جب غذائی قلت  پیدا ہوئی اس میں قدرت انسانوں اور انسانیت پر کبھی نامہرباں نہیں ہوئی۔ کہیں نہ کہیں بلکہ ہر کہیں انتظامیہ کی کوتاہی تھی۔ کبھی تو انتظامیہ قصور وار اور گناہ گار بھی نظر آتی ہے۔ بعض اوقات نیک نیتی سے کئے گئے کام اور اقدامات بھی الٹ پڑسکتے ہیں۔ پاکستان میں انسان کبھی بھوک سے پریشاں تھے۔ آج کسان وافر اناج کی پیداوار کے باعث ہراساں کیئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں کبھی اناج کی کمی رہی ہے نہ اب ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہو گی۔
1953ءمیں گندم کی سرکاری قیمت13روپے من تھی مگر سال کے شروع میں25سے30روپے من مشکل سے  دستیاب تھی۔ وہ بھی بڑی پہنچ اور سفارش سے۔ گندم کی کمی اور عدم دستیابی کے باعث کئی لوگوں نے باجرے اور مکئی کا استعمال شروع کر دیا ۔اجناس کی نقل و حرکت میں اضافہ ہونا فطری امر تھا تو حکومت نے ضلع بندی کر دی ، جس سے  منڈیوں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کا روزگار چھن گیا۔ اس دور کے اخبارات کو آج کھنگالا جائے، رپورٹس دیکھی جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سرگودھا اور لائلپور (آج کے فیصل آباد)کے کچھ علاقوں میں لوگوں نے درختوں کی جڑیں، پتے اور گھاس تک کھا کر گزارہ کیا۔ہو سکتا ہے ایسا ایک دو بار ہی ہوا ہو مگر یہ تاریخ میں رقم ہو گیا۔
2جنوری کو ایک خبر شائع ہوئی جس میں آئندہ 25افراد سے زیادہ کو دعوت پر بلانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ خلاف ورزی پر تین سال قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی تھی۔ ذخیرہ اندوزوں کی گرفتاریاں ہوتی رہیں مگر اصلاح احوال دور دور تک نظر نہ آ ئی۔ پنجاب میں میاں ممتاز خان دولتانہ وزیر اعلیٰ،خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم جبکہ دارالحکومت کراچی تھا۔ لوگ وزیر اعظم کا سیاپا کرتے تھے۔ ان کو قائد قلت کے نام سے پکارا گیا۔ ناظم الدین کے وزن پر ہاضم الدین کے نعرے لگائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے70ء کی دہائی کے دور حکومت میں بھی غذائی بحران نے سر اٹھایا تو ان کو بھی مخالفین کی طرف سے قائد قلت کا خطاب دیا گیا تھا۔
1953ءمیں غذائی قلت کی وجوہات جاننے اور آئندہ تدارک کے لیے کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ان کی رپورٹس اور تجزیات میں کہا گیا کہ بارشوں کی کمی سے گندم کم پیدا ہوئی تھی۔اس صورت حال سے ہر کوئی پریشان تھا ۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ قحط کے پنجوں سے کب نجات ملے گی۔ 
6مارچ 1953ءکو لاہور میں میجر جنرل اعظم خان کی کمانڈ میں مارشل لاءلگا دیا گیا۔ اگلے دوتین روز میں پورے پنجاب میں غذائی قلت کا سرے سے خاتمہ ہو چکا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا مارشل لاءتھا جو ایک مذہنی تحریک دبانے کے لیے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی اجازت سے لگایا گیا تھا۔ اس تحریک کی طرح کیا گندم کے بحران کے پیچھے بھی پنجاب حکومت کا ہاتھ تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چینی اور گھی کی راشن بندی کی گئی تھی۔ فی فرد ایک پاؤ ہر مہینے چینی کا کوٹہ مقرر تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءلگایا تو چینی اوپن مارکیٹ میں دستیاب ہونے لگی۔ 
قدرت  انسانیت  پر مزید مہربان ہوئی ہے ؛ کم و بیش  تیس پنتیس سال قبل گندم کی فی ایکڑ پیداوار15سولہ زیادہ سے زیادہ 20من فی ایکڑ ہوا کرتی تھی۔آج ساٹھ 65من جبکہ انڈیا میں80من تک ہے۔ مکئی 90 من تک ہوتی ہے جبکہ سال میں مکئی کی چارفصلیں پیدا ہوتی ہیں مگرپاکستان میں ایک بھی مکئی کی آئل مل نہیں ہے۔ چاول کی فصل کی پیداوار میں بھی گندم کی طرح فی ایکڑ اضافہ ہوا ہے۔ آم کے بارے میں کہا جاتا تھا دادا درخت لگائے پوتا پھل کھائے۔ آج جدید ٹیکنالوجی کے مرہون منت  ڈیڑھ دو سال میں آم کا درخت پھل دینے لگتا ہے۔ آڑو، کینو، خربوزے، انگور، کھجوریں اور بہت سے پھلوں کا سائز پہلے سے دو سے چار پانچ گنا زیادہ ہو گیا ہے۔ بہت سی فصلوں کی کاشت اور برداشت کادورانیہ کم ہو رہا ہے۔ ڈرپ اپریگشن کے ساتھ بیلوں والی سبزیوں اور فروٹ کے لیے  منزل در منزل جنگلے بنائے گئے۔ اس سے زمین کی گنجائش کو دو تین گنا یا اس سے  بھی زیادہ بڑھایاجا سکتا ہے۔ مزید براں پاکستان میں صحرائے تھر اورچولستان  بے شمار اراضی کو قابلِ کاشت  بنالیں۔ بیلوں کے ساتھ ہل چلا کر کسان جتنی زمین 8 گھنٹے میں تیار کرتا تھا آج ٹریکٹر یہ کام آٹھ منٹ میں کر دیتا ہے۔
کبھی انسان غذائی قلت سے پریشان ہوتے تھے آج اناج کی بہتات کے باعث کسان  پریشان بلکہ ہراساں ہیں۔ گندم کا سرکاری ریٹ39 سو روپے پچھلے سیزن کے برابر برقرار رکھا گیا ۔ اس پر بھی کسان سے خریداری نہیں کی جا رہی ہے۔ کوئی بھی حکومت کسان اور کاشت کار دشمن نہیں ہو سکتی۔ مس مینجمنٹ ہو سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نگران حکومت نے35لاکھ ٹن گندم بلا ضرورت باہر سے منگوالی تھی۔ اب ایک بار پھر گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے۔ کسان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی ۔حکومت کے پاس خرید کرکے ذخیرہ کرنے کے لیے گودام دستیاب نہیں ہے۔ ذخیرہ اندوز تین ہزار من سے بھی کم پر خریداری کر رہے ہیں۔
کسان کو مشکل سے نکالنے کے لیے ریاست کو ماں کی طرح سوچنا ہوگا۔ وزیر منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ جس افلاطون نے نگران دور میں گندم ضرورت سے زیادہ بلا ضرورت درآمد کی اسے سزا دی جائے ۔ ن لیگ حکومت کا یہ پہلا الزام ہے جس میں  پی ٹی آئی حکومت کو مورد  نہیں ٹھہرایا گیا۔ حکمران کس کو کہہ رہے ہیں کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے؟


پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ایک رکن نے بڑی خوبصورت بات کی کہ کوئی امیر ہے تو گوشت کے ساتھ روٹی کھا سکتا ہے، مڈل کلاس کا سبزی کے ساتھ، زیادہ غریب ہوگا تو اچار کے ساتھ کھا لے گا۔  گوشت، دال سبزی کا متبادل ہو سکتا ہے۔ روٹی ہر انسان کی ضرورت، جس کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ 
روٹی سستی اور ہر فرد کی دسترس میں ہونی چاہیے۔ شہباز شریف نے دو روپے کی روٹی کا منصوبہ شروع کیا۔ اربوں روپے کا یہ منصوبہ چند بڑے پیٹوں میں اتر گیا۔ عمران خان دور کی پناہ گاہیں اور لنگر خانے تعصب کی نذر ہوگئے۔نقصان شہباز شریف کا ہوا نہ عمران خان کا، غریب سے روٹی چھن گئی۔
مذکورہ لیگی ایم پی اے نےاچھی تجویز دی۔روٹی سستی کرنے کے لیے گندم سستی کی جائے۔فی من ریٹ دو ہزار روپے کر دیا جائے جس پر کسان، کاشت کاراور زمیندار کو نہ صرف اعتراض نہیں ہوگا بلکہ وہ خوش اور مطمئن ہوگا بشرطیکہ کھاد، بیج، ڈیزل، بجلی کے ریٹ اورمالیہ اسی تناسب سے کم کر دیا جائے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے فلاپ پراجیکٹس

مریم نواز کو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی ہونے کا اعزاز تو حاصل ہو گیا ہے مگر اس اہم  عہدے کی ذمہ داری کا احساس ہونا شاید ابھی باقی ہے. وزیراعلیٰ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے. تمام اہم فیصلے اسکے ذمہ ہوتے ہیں. پالیسی بنانا، قانون سازی کرنا، میرٹ پر فیصلے کرنا وزیر اعلیٰ کی ڈیوٹی ہوتی ہے.

حال ہی میں مریم نواز کو پنجاب پولیس کی وردی زیب تن کرنے پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا. مریم نواز جب وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں تو انھوں نے اسمبلی میں بڑی شاندار تقریر کی. اپنی ترجیحات کا عوام کو بتایا، صوبے کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لئے اقدامات کرنے کا عزم کیا.افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ مریم نواز نے ابھی تک جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں، جو بھی منصوبے عوام کے لئے بنائیں سب فلاپ ہو رہے ہیں.

مریم نواز نے ابتدا نگہبان رمضان کے منصوبے سے کی مگر وہ انتہائی فلاپ ہوا. آئیڈیا یہ تھا کہ راشن لوگوں کے گھروں تک پہنچے گا تا کہ عوام کو لائنوں میں نہ لگنا پڑے. کرنا یہ ہوا کہ نہ تو مستحق لوگوں کے گھروں تک راشن پہنچا اور الٹا لائنوں میں لگ کر عوام راشن کے لئے خوار ہوتے رہے. راشن صرف ان لوگوں کو ملا جو بیظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرڈ تھے. اب جو مزدور طبقہ خود کو رجسٹرڈ نہ کروا سکا وہ میڈم چیف منسٹر کے منصوبے سے محروم رہا. بلکہ ہوا یوں کہ جو راشن مستحق لوگوں تک نہ پہنچ سکا وہ ہر علاقہ کے پٹواری حضرات ہڑپ کر گئے.

یہ تو کہانی تھی میڈم چیف منسٹر کے پہلے منصوبے کی. اب آ جائیں دوسرے منصوبے کی جانب. چیف منسٹر کا ویژن تھا کہ مغربی ممالک کی طرح صوبہ پنجاب کو بھی صاف ستھرا رکھا جائے گا. تو اس حوالے سے میڈم چیف منسٹر نے ایک اور شاندار پراجیکٹ شروع کیا جس کا نام صاف ستھرا پنجاب رکھا گیا. میڈم کے حکم پر چند اے سی لیول کے  افسران نے تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں اور تاثر دیا گیا جیسے پورا پنجاب یورپ بن گیا ہے جہاں دن رات صاف ستھرائی کا کام ہو رہا ہے. جبکہ حقیقت یہ ہے پنجاب کے کسی ضلع یا تحصیل تو دور کی بات ہے چیف منسٹر کا اپنا شہر کوڑے کرکٹ اور سیوریج کے گندے پانی سے بھرا پڑا ہے. راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ صاف ستھرا پنجاب پر صرف تحصیل پتوکی کا وزٹ کر لیا جائے تو  میڈم چیف منسٹر کے  ایک اور فلاپ منصوبے کی حقیقت عیاں ہو جائے گی. تحصیل پتوکی گزشتہ ایک سال سے سیوریج کے گندے پانی سے ڈوبا ہوا ہے. جگہ جگہ گندگی ہے. کوڑےکرکٹ کا ڈھیر لگا ہوا ہے. سیوریج سسٹم ناکارہ ہو گیا ہے. پتوکی کی انتظامیہ نا اہل ہونے کے ساتھ ساتھ کام چور بھی ہے. ہر گلی محلے میں سیوریج کا گندہ پانی کھڑا ہے. حتی کہ قبرستان کے آگے بھی گندہ پانی ہے. لوگ اپنے پیاروں کا جنازہ بھی گندے پانی سے گزارنے پر مجبور ہیں. پتوکی کااسسٹنٹ کمشنر بے بس ہیں انکا اپنا سٹاف انکی نہیں سنتا. ڈپٹی کمشنر قصور ایک شاندار افسر ہیں لیکن وہ بھی اس معاملے پر بے بس ہیں. کیونکہ روایتی سیاست دان ووٹ لے کر غائب ہو گئے ہیں اور تحصیل پتوکی کو نا اہل انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے. میڈم چیف منسٹر کے صاف ستھرے پراجیکٹ کا یہ حال صرف پتوکی میں نہیں بلکہ پنجاب کے ہر ضلعے میں ہے. اب بات کرتے ہیں اگلے بحران کی. میڈم چیف منسٹر کسان کو خوشحال کرنا چاہتی تھیں مگر بیڈ مینجمنٹ اور مافیا کی بدولت کسان خوار ہو گیا. اب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ کسانوں نے سڑکوں پر نکلنے کے اعلان کر دیا اور اپنا حق لینے کے لئے احتجاج شروع کر دیا.
جہاں میڈم چیف منسٹر مریم نواز کے تمام منصوبے ناکام ہو رہے ہیں تو دوسری طرف افسران کی تقرری میں بھی میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں. حال ہی میں میڈم چیف منسٹر نے لاہور میں ڈی آئی جی آپریشنز کی سیٹ پر ایسے آفیسر کی تقرری کی ہے جو موسٹ جونیئر ہے جس نے  ابھی تک سینئر مینجمنٹ کورس بھی نہیں کیا. میڈم چیف منسٹر نے لاہور کی اس اہم سیٹ پر ایک جونیئر آفیسر کو لگا کر میرٹ کی دھجیاں بھی اڑائیں اور افسران میں بددلی بھی پیدا کی.
بزدار کے بعد ابھی تک سب سے زیادہ فلاپ  چیف منسٹر کا ایوارڈ ، میڈم چیف منسٹر کے نام ہے. یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کیا محرکات ہیں یہ انھیں خود ہی دیکھنا ہو گا. جب تک مریم نواز اپنے منصوبوں کی نگرانی خود نہیں کریں گیں اور بیورو کریسی پر سختی نہیں کریں گی تو انکا ہر پراجیکٹ فلاپ ہی ہو گا. اور بزادر کی طرح مریم نواز کی وزارت اعلی بھی قصہ پارینہ ہو جائے گی.

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے ۔۔۔!!!

سنتالیس لاکھ ٹن گندم پہلے سے موجود تھی، اس کے باوجود32لاکھ ٹن گندم درآمد کرلی گئی۔۔۔۔ پنجاب حکومت3200 میں امپورٹ ہوئی گندم4700روپے میں خرید رہی ہے۔۔۔ اس  کے بعد آئیں ہمارے کسان کی جانب،گندم کی قیمت3900روپے مقرر کی گئی،جس پر پانی،بجلی،تیل،یوریا،ڈی اے پی سمیت دیگراخراجات ملاکر کر فی من گندم4000 میں پڑتی ہے،ظلم دیکھیں،حکومت نےقیمت3900مقررتو کردی،لیکن اسے خرید نہیں رہی،جس کی وجہ سے گندم اوپن مارکیٹ میں2800 سے3000 میں خریدی جارہی ہے،دوسری طرف دیکھیں کھاد کے سرکاری ریٹ3600 لیکن کسان کو مل رہی ہے5500 میں۔ڈی اے پی کا ریٹ15ہزار سے زائد۔۔۔ اب حکومت کہہ رہی ہے70لاکھ میں سے صرف20لاکھ ٹن گندم خریدنی ہے،تو باقی گندم کو کیا کسان آگ لگا دے یا خود کو آگ لگالے۔۔۔ یا چوہوں کو کھلا دے ۔۔۔؟
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچی ہے۔۔۔
پنجاب حکومت نے150ملین روپے ڈیجیٹل میڈیا کے اشتہاریو اے کمپنی کو دینے کی ہدایت دی،یہ رقم رمضان نگہبان پیکج کی تشہیر کا حصہ تھی،ڈی جی پی آر آفیشلز کوکہا گیا آپ یہ رقم جاری کریں،ڈی جی پی آر آفیشلز نے رقم جاری کرنےسے انکار کردیا اور کہا کہ قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے،ہم یہ رقم جاری کیسے کرسکتے ہیں؟ پھرمریم اورنگزیب نے متعلقہ حکام کو دھمکیاں دی اور پریشر ڈالا کہ رقم عید سے پہلے جاری کردی جائے۔۔۔ دو روز قبل ڈی جی پی آرکو تبدیل کردیا گیا ہے۔۔۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچی ہے۔۔۔
پہلے محترمہ نے اپنے میڈیا سیل کے پانچ،چھ یوٹیوبر کو پی ٹی وی میں سات،سات،آٹھ،آٹھ لاکھ کی نوکریاں لیکر دیں، اور اب اپنے میڈیا سیل کے19صحافیوں کو مختلف سرکاری محکموں میں لاکھوں روپےتنخواہ پر ایڈجسٹ کروا دیا ہے،مطلب،اب محترمہ کا میڈیا سیل سرکاری خرچے یعنی کہ بھوک سے مرتی قوم کے پیسوں سے چلے گا۔۔۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچی ہے۔۔۔
پنجاب حکومت ائیرایمبولینس سروس شروع کررہی ہے،جس کیلئے تین چھوٹے جہاز اوردو ہیلی کاپٹر استعمال کئے جائینگے۔ دو چھوٹے جہازوں (سیسنا) پر مشتمل ایئر ایمبولینس کے اخراجات کا تخمینہ 44 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ دو ہیلی کاپٹرز کے اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔ ۔ عملے کی تنخواہیں، جہازوں میں استعمال ہونے والا پیٹرول، دیکھ بھال اور مرمت کے اخراجات  بھی حکومت کو ادا کرنا پڑیں گیں۔سنا ہے  مبینہ طور پر محترمہ نے ائیرایمبولینس کا ٹھیکہ اپنے قریبی رشتے دار کو دیا ہے۔ویسے کیسا لگے گا،جب مریض کو ائیر ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال پہنچایا جائے گا،ایمرجنسی میں کوئی بیڈخالی نہیں ملے  گا،ایک بیڈ پر پہلے ہی دو،دو مریض ہونگے، پھر ہوائی جہاز پر آنے والے مریض کوبینچ پر لٹا کر ڈریپ لگائی جائیگی، اور ڈریپ مریض کے ساتھ آنے والے اس کے رشتے دار کے ہاتھ میں پکڑادی جائیگی، پھر اس کے بعد ڈاکٹر صاحبان اس کے ہاتھ میں ہسپتال کے بالکل سامنے والے میڈیکل سٹور سے ادویات لانے کی پرچی تھمائیں گے،اب وہ کیا کرے ؟ ڈریپ کو پکڑے رکھے یا ادویات لیکرآئے ؟ وہ بے چارہ کسی خاکروب کو تین،چار سودیکر چند منٹ ڈریپ پکڑنے کی سہولت حاصل کرے گا۔اگلا امتحان میڈیکل سٹور پر شروع ہوگا،جب اس کی توقع سے بڑھ کر ادویات کا بل بن جائے گا،اور جیب  اسکی اجازت نہیں دیگی۔اِ دھراُدھر دیکھے گا، پھر کال کرکےکسی دوست سے پیسے منگوائے گا،ادیات لاتے لاتے مریض اللہ کو پیارا ہوجائے گا،واپسی پر ڈاکٹر بے عزتی کرینگے  اور اس کی موت کااسے ذمے دار ٹھہرائیں گے کہ تم ادویات وقت پر لیکر نہیں آئے جس کی وجہ سے مریض دم توڑ گیا،ائیرایمبولینس پر آنیوالے مریض کی اب گھرمیں لاش ایدھی والےلیکر جائینگے۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچی ہے۔۔۔
میں نے اپنے بیرون ملک  بھاگ جانےوالے تمام دوستوں کو ایس ایم ایس کیا کہ واپس آجاؤ،پنجاب میں روٹی4روپے سستی ہوگئی ہے،ویسے250 روپے کے چنے کی پلیٹ ،200روپے سبزی کی پلیٹ،700روپے کلو مرغی کے گوشت کے ساتھ16روپے کی روٹی کھانے کا اپناہی مزہ ہے۔دوستوںکو یہ بھی بتایا ہے کہ خواتین کے سوٹ آٹھ،آٹھ سو روپے میں ہوگئے ہیں۔۔۔کیا کروں؟ پٹواری دوستوں نے طنز سمجھ کر،یوتھیوں نے مذاق سمجھ کرگالیوں والے ایس ایم ایس بھیجے ہیں۔ 
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچی ہے۔۔۔
جس اراضی کی وجہ سےعلیم خان نے عمران خان کوچھوڑ دیا تھا،وہی11ہزار کنال  متنازع زمین اسے فراہم کردی گئی ہے،سنا ہے علیم خان نے پورا  راوی سٹی ہی روڈا سے مانگ لیا ہے کہ وہ اس سرکاری ادارے سے بہترشہر تعمیر کرسکتے ہیں،امیداور یقین ہے کہ انہیں مل جائے گا،ان کے پاس وہی نسخہ ہے جو ملک ریاض کے پاس ہے۔بڑے اور چھوٹے بھائیوں کا حصہ۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچی ہے۔۔۔
گاڑی کے ٹائر بدلنے پر اگر پونے تین کروڑ خرچ آگئے تو کونسی قیامت آگئی،جس دفتر میں بزدار بیٹھتا تھا،وہاں بیٹھنا تو توہین ہے،اسے نیا تعمیر کرنے پر اگرکروڑوں خرچ آگئے تو کونسا زلزلہ آگیا،اگر چاروںسہیلیاں ہیلی کاپٹر پر سیر سپاٹے کرنے کی ٹک ٹاک بنا لیتی ہیں تو کونساسیلاب آگیا۔ چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچی ہے۔۔۔
ایک مولوی صاحب جمعہ کے خطبہ میں خواتین کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے،کہہ رہے تھے،لپ سٹک لگا کر باہرگھومتی ہیں،فحاشی پھیلا رہی ہیں،لوگوں کےجذبات سے کھیلتی ہیں،گناہ پر آمادہ کرتی ہیں،تقریر ختم ہوئی،نماز کے بعد جب اکیلے ہوئے تو انکے ایک ہمسائے نے انہیں کہا،مولوی صاحب،آپکی بیوی بھی  توسرخی لگاتی ہے۔مولوی صاحب بولے۔۔۔ اوندی گل نہ کر۔۔۔اہنوں جچتی وی تاں بڑی اے۔
کسانوں،مریضوں،غریبوں،قومی خزانے،سرکاری اراضی،لوٹ مار کی باتیں چھوڑو۔۔۔۔۔محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔
شریف خاندان کا ذاتی کوئی ایک پراجیکٹ بتادیں، جو نواز شریف کے نام سے منسوب کیا گیا ہو۔۔۔؟ ایسے شوق صرف عوام کے پیسوں سے ہی پورے کرتے ہیں،بات تو یہاں تک ہے،جاتی امرا میں اپنے پیسوں سے کھاتے پیتے،مہمانوں کی خدمت اور دیگر اخراجات بھی نہیں کرتے،ہرماہ سارا بجٹ کھوکھر برادران فراہم کرتے ہیں۔ انکے شوق کا تازہ ترین کمال دیکھیں،پڑھیں اور مزہ اٹھائیں۔۔۔ پنجاب حکومت نے وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی قیادت میں تین ماہ کے لئے ترقیاتی بجٹ اسمبلی میں پیش کیا ،جس میں مریم نواز شریف کی خواہش پر مختلف شعبوں میں 35 نئی سکیمیں شامل کیں،ان ترقیاتی منصوبوں میں تعلیم، صحت اور کھیل کے 9 منصوبوں کو محترمہ کی خواہش پرنواز شریف کے نام پر رکھا گیا ، نواز شریف کے نام پر منصوب ترقیاتی منصوبوں میں نواز شریف میڈیکل کالج گجرات،نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سرگودھا، نوازشریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر لاہور،نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان، نوازشریف انفارمیشن ٹیکنالوجی سٹی لاہور، نواز شریف اسٹوٹرف سٹیڈیم سیالکوٹ، ہاکی سٹیڈیم سیالکوٹ،  نواز شریف ٹی ایچ کیو ہسپتال سڑک چوبارہ ضلع لیہ شامل ہیں۔ ان منصوبوں پر سرکاری خزانے سے 55 ارب 35 کروڑ کے فنڈز استعمال ہونگے سب سے زیادہ فنڈز نوازشریف کینسر ہسپتال لاہور پر 30 ارب استعمال ہونگے۔ ان منصوبوں کا نوازشریف کے نام سے منسوب کرنے کا مقصد نوجوان نسل میں ان کی مقبولیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت 30 ارب سے 60 لاکھ گھرانوں کو رمضان نگہبان پیکیج فراہم کر رہی ہے جس پر نوازشریف کی تصویر لگائی گئی ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل اگلے 2 سال میں ہوگی ۔۔۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچتی ہے۔۔۔
مزے کی خبر سنیں،محترمہ کے دوسہیلیوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہوچکی ہے،اس جنگ کا پہلا نتیجہ برآمد ہوچکا ،ڈی جی پی آر سکینڈل۔۔۔ ہوا کچھ اس طرح مریم اورنگزیب نے ڈی جی پی آر کو ہدایات جاری کیں کہ150 ملین روپے ڈیجیٹل میڈیا کے اشتہاریو اے کمپنی کوجاری کئے جائیں، ڈی جی پی آر نے وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری کو بتایا کہ ان پیسوں کو کیسے جاری کریں ۔۔۔؟ کیونکہ قانونی تقاضے پورے نہیں ہیں،عظمیٰ بخاری نے کہا آپ میرٹ پر کام کریں، پھر ڈی جی پی آر نے میرٹ پر کام کیا، اورخبربھی لیک ہوگئی،اس کے بعد تو پھر ڈی جی پی آر اور سیکرٹری اطلاعات کا تبادلہ تو بنتا تھا۔۔۔ کیونکہ مریم اورنگزیب توشریف خاندان کے ناک کابال ہیں۔انکے حکم عدولی پر توکچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچتی ہے۔۔۔
نواز شریف کا تازہ بیانہ جو رانا ثناء اللہ اور جاوید لطیف جیسے لوگوں کے بیانات کے ذریعے آگے بڑھایا گیا تھا وہ اپنی بیٹی کے سسر اسحق ڈار کو ڈپٹی وزیر اعظم بنوانے پر آکر ٹھس کر گیا۔۔۔۔
 روشنی سایہ ظلمات سے آگے نہ بڑھی
 خاک پھر خاک تھی اوقات سے آگے نہ بڑھی
چلو۔۔۔ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنا کر نوازشریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کا قد تو چھوٹا کرلیا۔۔یہ ان لوگوں کو میسج دیا گیا ہے جو شہبازشریف کو حقیقی وزیراعظم سمجھ بیٹھے تھے۔۔،محترمہ اپنی بہن کے سسر کی ترقی پر خوش ہیں، بلکہ اس بات پر اور زیادہ خوش ہیں کہ انکے چچا کو ’’ نکرے‘‘ لگایا جارہا ہے، اوراپنے چچا سے پارٹی صدارت بھی چھین کر نوازشریف کو دی جارہی ہے اور انکے پارٹی سیکرٹری کو بھی فارغ کیا جارہا ہے اور اس طرح پارٹی محترمہ کے ہاتھ مکمل آجائے گی۔۔۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچتی ہے۔۔۔
آصف کرمانی بتاتے ہیں محترمہ کا نام مریم صفدر سے مریم نواز کرنے میں ان کا اہم کردار تھا،بتاتے ہیں،نواز شریف نے انہیں کہا کہ مریم کے ساتھ صفدر نہیں آناچاہیے،نواز آنا چاہیے۔۔۔پھر انہوں نے ارتھ ڈے  کے موقع پر تمام چینل کو ٹکر بھیج دیئے ’’ ارتھ ڈے پر جاتی امرا کی لائٹیں بند کی جائیں گی،مریم نواز‘‘۔۔۔ بس اس کے بعد پھر مریم نواز شروع ہوگیا۔۔۔ محترمہ پر لکھی گئی کتاب  دختر’’ پاکستان‘‘ میں انکشاف کیا گیا کہ موصوفہ کو بچپن میں ہی وردی پہننے کا بڑا شوق تھا،زمانہ طالبعلمی میں کئی پروگرامز میں انہوں نے فوجی وردی پہنی تھی،یہ بچپن کا ہی شوق تھا جو انہوں نے وزیراعلیٰ بن کر پورا کیا ہے۔۔۔۔
چھوڑو۔۔۔۔ جلنے،سڑنے،ہوکے بھرنے،ماتم کرنے والی باتیں۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچتی ہے۔۔۔
محترمہ کے وردی پہننے پر انکی پارٹی کے ارکان، انکے فالوورز انتہائی خوش ہیں، شاہ بابا سے خوشی کی وجہ پوچھی تو وہ ہنس پڑے،میں نے دوبارہ اپنا سوال دھرایا تو زیر لب مسکرائے، میں بھی باز نہ آیا،تیسری بار پوچھ لیا، وہ کہنےلگے سن۔۔۔ !!گاؤں کے چوہدری کے کتے سے مراثیوں کا کتا جیت گیا۔۔۔ مراثی صبح شام چوہدری کے گھر کے سامنے بھنگڑے ڈالتے۔۔۔ چوہدری بہت پریشان تھا کہ کہیں سے کوئی تگڑا کتا ملے اور ان کے منہ بند کیئے جائیں۔۔۔۔ آخر کار چوہدری کو کتا ملا اور بہت مہنگا ملا، چوہدری نے سوچا چلو عزت تو واپس ملے گی۔۔۔میدان سجا ہر عام و خاص کو مدعو کیا گیا اور چوہدری کا کتا جیت گیا۔۔۔چوہدری خوشی خوشی گھر جا رہا تھا کہ سامنے وہی مراثی بھنگڑے ڈالتے ہوئےآرہے تھے ۔۔۔چوہدری کو تجسس ہوا کہ میں نے اپنی جمع پونجی ان کو ہرانے میں لگا دی اور یہ بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔۔۔اور جب چوہدری نے ان سے پوچھا کہ میں تو اس لیئے خوش ہوں کہ بچی کھچی عزت واپس مل گی، لیکن تم تو ہار گۓ تم کیوں بھنگڑے ڈال رہے ہو؟مراثی کہنے لگے۔۔۔۔ چوہدری صاحب ۔۔!! اسی مراثی آں،نچنا ساڈا کم اے،سانو جت ہار نال کی مطلب۔۔۔ 
ویسے۔۔۔۔۔ محترمہ کووردی بڑی جچتی ہے۔۔۔

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

ہارون رشید نے بہلول کو ہدایت کی کہ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ہیں وہ چیک کریں اور جن کے تول والے پتھر کم نکلیں انہیں گرفتار کرکے دربار میں حاضر کریں۔۔۔

بہلول بازار جاتے ہیں۔۔۔ پہلے قصائی کا تول والا پتھر چیک کرتے ہیں تو وہ کم نکلتا ہے، قصائی سے پوچھتے ہیں کہ حالات کیسے چل رہیں  ہیں۔۔۔؟قصائی کہتا ہے کہ بہت برے دن ہیں ،دل کرتا ہے کہ یہ گوشت کاٹنے والی چھری بدن میں گھسا دوں اور ابدی نیندسوجاؤں۔۔۔بہلول آگے دوسرے قصائی کے تول والے پتھر کو چیک کرتے ہیں وہ بھی کم نکلتے ہیں۔۔۔ قصائی سے پوچھتے ہیں کہ کیا حالات ہیں  گھر کے۔۔۔؟ وہ کہتا ہے کہ کاش اللہ نے پیدا ہی نہ کیا ہوتا بہت ذلالت کی زندگی گزار رہاہوں۔۔۔ بہلول آگے بڑے۔۔۔تیسرے قصائی کے پاس پہنچے، تول والا پتھر چیک کیا تو بالکل درست پایا ۔۔قصائی سے پوچھا کہ زندگی کیسے گزر ری ہے۔۔۔؟قصائی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بہت خوش ہوں، اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم کیا ہے، اولاد نیک ہے،زندگی بہت اچھی گزر ری ہے۔۔۔بہلول واپس آتے ہیں خلیفہ ہارون رشید پوچھتے ہیں کہ کیا کارکردگی ہے۔۔۔؟بہلول کہتے ہیں کہ کئی قصائیوں کے تول والے پتھر کم نکلے ہیں۔۔۔خلیفہ نے غصے سے کہا کہ پھر انھیں گرفتار کرکے لائے کیوں نہیں۔۔۔؟ بہلول نے کہا اللہ تعالیٰ انہیں خود سزا دے رہاہے، ان پر دنیا تنگ کردی گئی ہے تو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟

آج کل  ہمارے بھی  حالات  کچھ  ایسے ہی نظر آرہے ہیں ۔۔۔نہیں یقین تو مجیب الرحمٰن شامی سے پوچھ لیں۔۔۔پاکستان کے سیاہ وسفید کا مالک قران مجید پر ہاتھ کر قسمیں کھارہا ہے کہ وہ معصوم ہے،بے گناہ ہے،حکومت گرائی نہ نواز شریف کو باہر بھیجا۔۔۔باجوہ  صاحب شاید بھول گئے،ویسے بھی ان کی عمر کا تقاضا ہے،آدمی بھول ہی جاتا ہے۔۔۔خواجہ آصف سمیت ن لیگ کے تمام ارکان متعدد باربیان دے چکے کہ باجوہ نے نواز شریف کو بیرون ملک بھیجا،عدالت سے ریلیف لیکر دیا،50روپے کے سٹامپ  کی گارنٹی دلوائی۔۔۔اس سے پہلے باجوہ صاحب ہی متعدد اینکرز اور صحافیوں کو کئی بار بریفنگ دے چکے  کہ شریف خاندان اور زرداری چور اور ڈاکوہیں،صحافیوں کو ان کے خلاف ثبوت فراہم کرتے رہے۔۔۔ کیا یہ جھوٹ ہے ؟ باجوہ اس وقت وزیراعظم عمران خان پر دباؤ ڈالتے رہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرو،کشمیر کی بات نہ کیا کریں،جب عمران خان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا، تو باجوہ نے سینئر صحافیوں کے وفد کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ عمران خان کو سمجھاؤ  وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے ہماری اسی میں بھلائی ہے،اس وفد میں حامد میر بھی شامل تھے، جو کئی بار اس بات کا اظہار کرچکے، کیا یہ جھوٹ ہے ؟ جب باجوہ نے صحافیوں کے وفد کو ہی بتایا تھا کہ شہباز شریف نے میٹرو بس کے پراجیکٹ سے40فیصد کمیشن کھائی ہے۔۔۔

ن لیگ،پیپلز پارٹی  کے ارکان اور پی ڈی ایم کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن کئی باراعتراف کرچکے کہ عمران خان کےخلاف  تحریک عد م اعتماد باجوہ کی مددسے کامیاب ہوئی تھی۔کیا یہ سچ نہیں؟ باجوہ نے اس شخص کو وزیراعظم بنوایا جس کے بارے کہتے تھے انہو ں نے میٹرو بس پراجیکٹ سے کمیشن لیا اور منی لانڈرنگ کرتے رہے۔ کیا یہ جھوٹ ہے؟ باجوہ نے شریف خاندان کے کرپشن مقدمات ختم کرائے۔ کیا یہ بھی جھوٹ ہے ؟ باجوہ کا سمدھی صابر مٹھو اربوں روپے  کی لوٹ مار کرکے  ملک سے بھاگ گیا تھا۔کیا باجوہ  نے اربوں روپے کے اثاثے نہیں بنائے؟ اثاثوں کی خبر بریک کرنے والے صحافی کو کیوں اٹھا لیا گیا تھا؟ کیا باجوہ   کی رجیم چینج کی وجہ سے ملک کا بیڑا غرق نہیں ہوا؟ کیا عوام کا معاشی قتل نہیں ہوا؟ کیا ادارے تباہ نہیں ہوئے؟۔۔۔ کیا یہ جھوٹ ہے ؟ باجوہ نے دوسری بار ن لیگ  سے ایکسٹینشن مانگی  اور ساتھ دھمکی دی  تھی کہ وہ مارشل لا  لگا دیں  گے ۔۔

۔شاید باجوہ صاحب کو یاد نہیں،اب 2024  ہے،1970 نہیں۔سوشل میڈیاکا دور ہے،ہر بات ریکارڈ پر آجاتی ہے۔۔۔حالات اس مقام پر آچکے ہیں،باجوہ صاحب کا اب بیرون ملک میں رہنا بھی انتہائی مشکل،لوگ سڑکوں پر گھیر لیں گے،ادھر پاکستان میں گھر سے نکلنا مشکل۔۔۔اب ’’ شامیوں‘‘ کو گھر بلا کر قسمیں اٹھا رہے ہیں۔۔۔باجوہ صاحب !! آپکے ’’ گوشت تولنے والے پتھر کم وزن نکلے ہیں‘‘۔۔۔عدالت تو آپکو کوئی سزا نہیں دے سکتی،لیکن اللہ تعالیٰ نے سزا شروع کردی ہے اور دنیا تنگ ہوگئی ہے،جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو،عوام آپ پر یقین نہیں کرینگے۔

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

کیا آپ نے ہندی فلم ’’ سپیشل 26 ‘‘ دیکھی ؟ کمال کی کہانی ہے،لوسٹوری نہ ایکشن مووی، معمول سے ہٹ کرکام کیا گیا ہے ۔اکشمے کمار ہیرو ہیں،انکے ساتھ انوپم کھیر ہیں۔ ہوتا کچھ اس طرح ہے،اکشمے کمار’’ سی بی آئی‘‘ میں بھرتی ہونے جاتے ہیں،لیکن کامیاب نہیں ہوتے،اسکے بعد وہ اپنی سی بی آئی بنا لیتے ہیں۔ زیادہ تر ان لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں جو انکی طرح فیل ہوئے ہوتے ہیں۔

پوری فلم میں وہ سب ملکر وارداتیں ڈالتے ہیں،سی بی آر افسر ملکربڑے بڑےتاجروں کے گھر چھاپےمارتے ہیں،پولیس بھی ساتھ لے لیتے ہیں،سب کچھ ضبط کرکے لے جاتے ہیں،حتیٰ کہ وزرا کو بھی نہیں چھوڑتے۔ٹیم کی قیادت بھی انوپم کھیر کرتے ہیں، کبھی اکشے کمار۔انکی ہر واردات کامیاب ہوتی ہیں،پکڑے نہیں جاتے۔ انکی کامیابی کا راز یہ ہوتا ہے،وہ ہر بارواردات کا طریقہ تبدیل کرتے ہیں۔۔۔ واردات کا طریقہ تبدیل کرنے سے پاکستان میں ہونیوالے الیکشن نتائج یاد آگئے۔

عام انتخابات میں ریٹرننگ آفیسرز کے ذریعے نتائج چوری کئے گئے،ضمنی میں پریزائڈنگ آفیسرز کے زریعے واردات ڈال دی گئی۔تحریک انصاف کی نظر عام انتخابات میں فارم45 پر تھی،انہوں نے فارم47 کے ذریعے من پسند نتائج تیار کرلئے،اب پی ٹی آئی کی نظر فارم45 اورساتھ فارم47پر تھی،انہوں نے بات وہاں تک جانے کی نوبت ہی نہیں آنے دی،سارا کام پریذائڈنگ آفیسر سے ہی کروا لیا،پولیس کا بھرپور ساتھ تھا۔اس طریقہ واردات سےمجھے10اکتوبر2002 یادآگیا،پرویز مشرف کا دورتھا،ق لیگ کنگ پارٹی تھی،انکی جیت یقینی بنانالازم تھا،گوجرانوالہ کا پولنگ سٹیشن تھا،پریذائڈنگ آفیسر تھے ڈاکڑ محمد منشا چہل، آج کل وہ بیرون ملک مقیم ہیں، پولنگ شروع ہونے سے قبل انکے پاس آتے ہیں ایک مجسٹریٹ اورایک تحصیلدار۔

ڈاکٹر صاحب سے الگ ہوکر ملاقات کرتے ہیں اورہدایات جاری کرتے ہیں کہ آپ نے بیلٹ باکس میں مہریں لگی تین کاپیاں ڈالنی ہیں،ایک کاپی میں ایک سو بیلٹ پیپرز ہوتے ہیں۔مطلب آپ نے تین سو جعلی ووٹ ڈالنے ہیں۔ ایسے ہی ہر پولنگ سٹیشن میں،دو،تین سو جعلی ووٹ ڈالےجانے تھے،ڈاکٹر صاحب نے تو صاف انکار کردیا، اور جعلی کام نہ ہونے دیا،بہرحال زیادہ تر پریذائڈنگ آفیسرہمت نہ دکھاسکے۔۔۔۔اور پورے ملک کے الیکشن نتائج چوری کرلئے گئے اور اس طرح ق لیگ 126 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی سے بھی تمام الیکشن اسی طرح چوری ہوتے رہے،2013 میں واردات تبدیل کردی گئی، افتخار چوہدری چیف جسٹس تھے، انہیں خریدا گیا،انہوں نے آر اوکے ذریعے ن لیگ کو اکثریت دلوا دی،ان نتائج پر نہ صرف عمران خان نےاحتجاج اور دھرنا دیا،بلکہ آصف زرداری نے کئی بار کہا کہ یہ آر او کےالیکشن تھے۔۔۔

2024 کے انتخابات میں میرے ایک دوست سول جج نے بتایا کہ اس بارآراوبےایمانی نہیں کرینگے،پنجاب اور پختونخوا کے لوئر کورٹ کے ججوں نے اٹل فیصلہ کرلیا ہے۔بات لیک آؤٹ ہوگئی،ججوں کے جذبات ’’ اوپر‘‘ تک پہنچ گئے۔۔۔ اور الیکشن کمیشن نے عدلیہ کے بجائے بیوروکریسی سے الیکشن کرانے کاحکم جاری کردیا۔ کیونکہ بیوروکریسی کو آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا تھا،تحریک انصاف کے ایک رہنما نے الیکشن کمیشن کے ان احکامات کولاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا، عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کے ان احکامات کو مسترد کردیا،جونہی یہ احکامات مسترد ہوئے،قاضی صاحب میدان میں آگئے، کیونکہ واردات میں قاضی کا اہم رول تھے،بلکہ سمجھیں کپتان وہی تھے۔سوموٹوایکشن ہوا،ہائی کورٹ کا حکم ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا،درخواست گزارکو جرمانہ تک کردیا گیا۔بیوروکریسی نےنتائج مرضی کے مطابق تیار کردیئے،اتنی پھرتی دکھائی گئی،ن لیگ کی 19سیٹوں کو80 سے اوپرلے گئے۔

30ہزار ووٹ لینے والوں کے فارم47 میں صرف ایک ڈال کر ایک لاکھ30کئے گئے۔ن لیگ کے اپنےاہم رہنما اس بات کی گواہی دے رہے ہیں،جاوید لطیف نے چینل پرکہا کہ شیخوپورہ کی5سیٹیں90کروڑ میں خریدی گئی،پیسے لینے والے کا نام تو نہیں باتایا،لیکن اسکے دفترکاپتہ بتا دیا۔اچکزئی نے اسمبلی اجلاس میں بھی یہی بات کہی تھی  کہ سندھ بلوچستان کی اسمبلیاں فروخت کی گئیں،اس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسی دعوے کی تصدیق  کی کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں فروخت ہوئی ہیں،ن لیگ نے آخر کونساکارنامہ سرانجام دے لیا تھا،پنجاب میں تمام سیٹیں جیت گئے؟متعدد ویڈیو ثبوت سامنے آچکے ہیں،جس طرح پولنگ سٹیشنوں کے کمرے بند کرکے ڈبے بھرے گئے،پرویزالہی جیسا آدمی گجرات سے موسیٰ الٰہی سے ہارجائے، وہ بھی لمبی لیڈ سے،کیسے ممکن ہوسکتا ہے،گجرات کے رہائیشیوں  کے مطابق موسیٰ کے ووٹ چھ،سات ہزار سے زیادہ نہیں تھے۔اس واردات کا ایک اور پہلو پر غور کریں،الیکشن ڈیوٹی کیلئے تربیت کرنے والے90فیصد افراد کوپولنگ سٹیشنوں پر بھیجا ہی نہیں گیا، اور ’’خصوصی تربیت ‘‘ والاعملہ بھیج دیا گیا۔۔۔

لاہور کے ایک حلقے سے40پریذائڈنگ آفیسر کو اٹھایا گیا،ان سے فارم45 اور فارم47پر دستخط کرائے گئے۔۔۔7افسروں کو مار بھی پڑی ہے ۔۔۔سب کچھ منظر عام پر آچکا ہے۔۔۔ سپیشل 26 میں آخر میں ہوتا کیا گیا،سب کو انکی وارداتوں کے طریقے کار کا پتا چل جاتا ہے،اور اکشے کمارمحبوبہ کے ساتھ بیرون ملک بھاگ جاتا ہے اور ہمارے ہاں بھی نوجوان نسل ’’ انکے‘‘ طریقہ واردات کو جان چکی ہے جو75سال سے جاری ہے،اینڈ وہی ہونا ہے جو اکشمے کمار کا ہوا تھا۔۔۔آپ ’’سپیشل 26‘‘ضرور دیکھیں۔

یادش بخیر۔۔۔ رابطے ملاقاتیں

عید پر میل ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں، مگر اس مرتبہ یہ معمول کچھ غیر معمولی ہو گیا۔ بہت سے دوست کئی دہائیوں بعد رابطے میں آئے۔ کچھ ایسے بھی جن سے رابطے کی کوشش کی تو پتہ چلا دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ سرمد جعفری  صحافت دوپہر میں کولیگ تھے۔ ان کو عید کے بعد میسج کیا تو ان کے نمبر سے ان کی تربت دکھا دی گئی۔ ان کا ایک روز قبل انتقال ہوا تھا۔ سرمد جعفری روزنامہ آزادی کے چیف ایڈیٹر تھے۔ان کے دوست اشرف انجم سے بات کی وہ گوجرانوالہ میں ہوتے ہیں۔ وہ اس سانحہ ارتحال سے لا علم تھے۔ منیر جرمانوی ان کے کولیگ ہوا کرتے تھے۔پیج میکر منیر صاحب مریدکے سے سائیکل پہ کریم بلاک لاہور آیا کرتے تھے۔ آئے روز لیٹ آنے پر ان کو جرمانہ ہو جاتا توتخلص ہی جرمانوی پڑ گیا۔ 
اشرف قریشی کا بیس بائیس سال سے مستقر اسلام آباد میں تھا۔ ان سے گاہے بگاہے فون پر رابطہ ہو جاتا تھا۔ عید پر ان کو کال کی تو ان کے بیٹے اسامہ نے بتایا کہ وہ تین ماہ قبل اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ پہلے اٹیک ہوا پھر برین ہیمبرج ہوگیا۔
پرانے دوستوں اور واقف کاروں کی سوشل میڈیا کے ذریعے تلاش جاری رہتی ہے۔ کچھ مل بھی جاتے ہیں۔ ایک بار کوئٹہ گردی کا اتفاق ہوا تو وہاں سلیم قطری سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان کا تعلق سرگودھا کے گاؤں دُھپ سڑی سے تھا ، شاید تحصیل بھلوال میں یہ گاؤں ہے۔ ان سے ملاقات 1984ء میں ہوئی یہ فوج میں سویلین تھے۔ ان کے ساتھ انہی کے گاؤں کا جمیل بھی ملا جو ایئر فورس کے کسی میس میں باورچی تھا۔ سلیم کا قطر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ چائے یا شربت قطرہ قطرہ کر کے پیتے۔ لہٰذا احباب انہیں قطری کہنے لگے۔کوئٹہ سے یاد آیا کہ میں کینٹ ایریا کی  ایک پارک میں سیر اور سٹڈی کے لیے جایا کرتا تھا۔اس پارک میں بادام کے درخت در درخت تھے۔ انکے نیچے باداموں کے ڈھیر لگے ہوتے، کاغذی بادام مگر بہت ہی کڑوے۔
کل ہی شاہد اقبال خٹک کا فون آیا۔ انہوں نے مجھے دریافت کرنے کی کوشش کی۔ مجھے بھی ان کی تلاش تھی۔ ان کے توسط سے پرانے دوستوں کا ریلا امڈ آیا۔ خان بیگ، فلک ناز، کشور جاوید، وقاص، محمد سعید اور دیگر بھی۔ ان سے رابطہ تیس سال بعد ہوا۔
اب سے تھوڑی دیر قبل غلام علی صاحب کا فون آگیا۔ ان سے بھی آخری مرتبہ تیس سال قبل ہی ملاقات ہوئی تھی۔اشرف مغل صاحب گوجرانوالہ میں ہوتے ہیں اور ان سے فون پر کبھی کبھار رابطہ رہتا ہے۔ محمد فاروق اور حاجی امانت بہت سے دوستوں کے رابطہ کار ہیں۔ گوجرانوالہ میں ہی قدیم دوست رانا صاحب مقیم ہیں۔جوانی میں بڑی باتیں کیا کرتے۔ لمبی لمبی چھوڑا کرتے ۔عید پر بتایا کہ ڈاکٹروں نے  پاؤں کا انگوٹھا کاٹ دیا ہے۔ میں نے ترنت  پوچھا زبان کے بارے میں ڈاکٹروں کا کیا کہنا ہے۔ان کا قہقہہ تو بلند ہوا لیکن  چھوڑنے جتنا لمبا نہیں تھا۔
یسٰین وٹو ماہر علوم فلکیات تین چار سال قبل اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ آج بھی ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے ان کی یادوں کی مہک آتی ہے۔ ڈاکٹر عظمت رحمٰن بھی کم و پیش اتنے ہی عرصہ پہلےدارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ وہ گنگا رام اور جنرل ہسپتال کے ایم ایس رہے۔ ایران میں شہنشاہ ایران کے معالج رہے۔ ان کے والد حکیم تھے۔ انہوں نے بیٹے کو ڈاکٹر بنایا لیکن حکمت ان کو وراثت میں ملی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پریکٹس نہیں کرتے تھے۔ کوئی مشورے کے لیے جاتا تو حکیمانہ نسخے تجویز کرتے تھے۔
رانا اسمٰعیل سے یاد اللہ بھی چار دہائیوں پر محیط ہے۔چیچہ وطنی میں ہوتے ہیں ۔ سائنسی بنیادوں پر کاشت کاری کرتے ہیں۔کالا تیتر ان کا شوق اور پہچان بن گیا ہے۔ جہاں بھی جائیں تیتر والا پنجرہ ساتھ ہوتا ہے۔ چودھری محمد حنیف پاکپتن میں بابا فرید الدین شکر گنج کے مزار پر کئی مرتبہ لے گئے ۔ان کے ڈیرے پر گگو منڈی سے ریاض احمد اور سمندری سے رانا الیاس بھی حاضری دیتے ہیں۔
میری اپنی عمر 65سال ہونے کو ہے۔ پرائمری کے اساتذہ میں سے اب بھی شوکت صاحب جسلانی والے سے رابطہ ہے۔ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر مرزا اقبال محمد بیگ لاہور ہی میں ہوتے ہیں۔ ان سے نیاز مندی ہے۔ خالد لطیف خالد بھی چھٹی سے میٹرک تک مختلف سبجیکٹ پڑھاتے رہے۔ وہ شور کورٹ میں ہوتے ہیں ، ہر عید پر آپ کا مبارک باد کا فون آتا ہے۔ چند ماہ قبل ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اقبال صاحب کو دل کا مسئلہ ہوا۔ پی آئی سی میں دو ماہ کی تاریخ ملی۔ ڈاکٹر احمد سلیم صاحب سے بات کی تو دوسرے روز جناح ہسپتال سے سٹنٹ ڈل گیا۔ اقبال صاحب نے اصرار کیا کہ ہر صورت وہ گفٹ دینا چاہتے ہیں اور چوائس ہمارے اوپر چھوڑ دی۔ اصرار بڑھا تو جائے نماز اور تسبیح کی ڈیمانڈ کر دی۔ خالد لطیف خالد نے جو اخلاقیات اور آداب سکھائے وہ آگے اپنے طلباءکو ٹرانسفر کر دیئے۔ مجھے استاد کہنے والوں کی تعداد شاید ہزاروں میں ہو۔ ”ایہہ بڑا استاد اے“۔ ایسا بھی کچھ کہتے ہونگے۔
چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی کلاس پڑھائی جس میں کچھ بزرگ سٹوڈنٹ بھی تھے۔
اب جبکہ میں آرٹیکل کی نوک پلک درست کر رہا ہوں تو وٹس ایپ گروپ میں رحیم شاہ کی رحلت کی خبر بلنک کرنے لگی۔رحیم شاہ سے بھی ملاقات 27 اٹھائیس سال قبل ہوئی تھی۔ ڈیسنٹ اور ڈیووٹڈ کو لیگ تھے۔گزشتہ دنوں گاؤں میں ایک فوتگی پر حاجی عبدالغنی سے 54 سال بعد ملاقات ہوئی ۔ عبدالغنی تیسری کلاس میں گاؤں سے ننکانہ صاحب شہر چلے گئے تھے۔ آجکل بلدیاتی سیاست بھی کرتے ہیں۔
کئی لوگوں کا خلا پر نہیں ہوتا ان میں سے ایک مجید نظامی صاحب بھی ہیں۔ وہ اخلاقیات کا بھی اعلی نمونہ تھے۔ ان کے ساتھ کئی سال روزانہ ادارتی میٹنگ ہوتی رہی۔ بہت سے معاملات میں جمیل اطہر قاضی اور مجیب الرحمن شامی میں ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ ضیا شاہد زندگی کے آخری ماہ و سال میں بک رائٹنگ کی طرف زیادہ مائل ہو گئے تھے۔ جب بھی علامہ عبدالستار عاصم کے ادارے قلم فاؤنڈیشن کی شائع کردہ نئی کتاب آتی مجھے بھی بھجواتے ۔ضیا شاہد نظامی صاحب کا مرشد کی طرح احترام کرتے تھے۔
حرف آخر: زندگی کا سفر کٹ رہا ہے. آخری منزل کا سب کو علم اور یقین بھی ہے ۔ اجمل نیازی کہا کرتے تھے کوئی نہیں کہتا کہ کبھی نہیں مرنا مگر ہر کوئی سمجھتا ہے ابھی نہیں مرنا۔

موٹروے پولیس اہلکار کو ٹکر مارنے والی خاتون کی شناخت ہو گئی۔۔تفصیل جانئے اس رپورٹ میں

 اسلام آباد میں موٹروے ٹول پلازہ پر پولیس اہلکار کو گاڑی سے ٹکر مارنے والی خاتون کی شناخت ہو گئی ہے۔خاتون کا نام فرح بتایا جا رہا ہے ۔ یہ پاکستان کے مشہور اینکر پرسن عامر متین کی اہلیہ ہیں جبکہ ان کی ایک کزن نسیم زہرہ اور دوسری ڈان میں کام کرنے والی قدسیہ اخلاص ہیں جبکہ ان کے ماموں پاکستان کے چوٹی کے وکیل رضا کاظم  ہیں۔


 دوتین روز سے پاکستان بھر میں اس واقعے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سفید رنگ کی گاڑی میں سوار خاتون نے پولیس افسران سے تلخ کلامی کی ان پر شاؤٹنگ کرتی اور ان کو دھمکیاں دیتی رہیں۔اور پھر ایک اہلکار کو گاڑی سے ٹکر مارتے ہوئے فرار ہو گئیں۔ ترجمان موٹروے پولیس نے واقعے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ واقعہ یکم جنوری 2024 کو اسلام آباد ٹول پلازہ پر پیش آیا، جس کے بعد خاتون ڈرائیور کے خلاف ضلع راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں ایف آئی ار درج کروا دی گئی تھی۔
واقعہ پیش آنے کے چار ماہ بعد راولپنڈی پولیس نے اب دعویٰ کیا ہے کہ خاتون کی شناخت کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔


تھانہ نصیرآباد کے ایس ایچ او محمد ابراہیم کے مطابق خاتون کا نام فرح ہے اور جو گاڑی وہ چلا رہی تھیں وہ ان کی والدہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے، ایس ایچ او نے مزید کہا  معاملہ زیرتفتیش ہونے کے باعث خاتون کی مکمل شناخت ظاہر نہیں کی جاسکتی پول پولیس کی طرف سے خاتون کی مکمل شناخت ظاہر نہیں کی گئی ۔تاہم اس خاتون کی اور ان کے خاندان کی مکمل شناخت زنیرہ ماہم نے اپنے وی لاگ میں ظاہر کی ہے ۔زنیرہ ماہم کی رپورٹ کے مطابق خاتون کا نام فرح ہے اس کی عزیز داری کے بارے میں ہم اسی خبر کے انٹرو میں آپ کو بتا چکے ہیں ۔زنیرہ ماہم کی رپورٹ کے مطابق اس خاتون نے پولیس اہلکار کو ٹکر مارنے سے پہلے بیریئر کو توڑا تھا پولیس اہلکار ٹکرلگنے سے ایک سائیڈ پر گر گیا خاتون نے وہاں سے اپنی گاڑی بھگا لی۔

ویڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ اس خاتون کی گاڑی کا پیچھا موٹروے پولیس کی طرف سے کیا گیا ۔زنیرہ ماہم اپنی تحقیق میں بتاتی ہیں کہ چند کلو میٹر فاصلے کے بعد فرح کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے موٹروے پولیس کی گاڑی کے مسلسل پیچھا کرنے کے باعث اپنی گاڑی روکی۔ ان کو وہاں سے تھانے لے جایا گیا اور اس خاتون کی طرف سے گاڑی رکتے ہی رونا دھونا شروع کر دیا گیا ۔تھانے میں ان کے ساتھ کوئی بد سلوکی تو نہیں کی گئی لیکن کوئی اچھا سلوک بھی ان لوگوں کی طرف سے نہیں کیا گیا جن کا ایک ساتھی ان کے سامنے اس خاتون کی گاڑی کی ٹکر سے گرا  تھا۔ اس کے بارے میں ان کی گاڑی کا پیچھا کرنے والے اہلکاروں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کس حالت میں ہے

۔زنیرہ ماہم کے مطابق فرح کو تھانے سے بالاخر رہا کر دیا گیا اور چار ماہ کے بعد یہ ویڈیو وائرل ہوئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ خاتون پاکستان سے باہر جا چکی ہیں عامر متین کے حوالے سے جو انفارمیشن سامنے آئی ہے اس کے مطابق عامر متین کی اپنی اہلیہ کے ساتھ بنتی نہیں تھی شاید ان میں علیحدگی بھی ہو چکی ہے۔آپ کے سامنے ہے یہ خبر ہم نے انفارمیشن کے طور پر رکھی ہے اس میں ہم نے اپنا تبصرہ بالکل نہیں کیا۔


واضح رہے کہ اس واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکار کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ خاتون موٹروے پر مقررہ حد رفتار سے تیز زگ زیگ انداز میں گاڑی چلا رہی تھیں، جب انہیں روکا گیا تو انہوں نے پولیس سے تعاون کرنے سے انکار کیا اور تلخ کلامی شروع کر دی۔


پولیس اہلکار کے مطابق سفید رنگ کی ہنڈا سوک میں سوار خاتون سے کوائف طلب کیے گئے تو انہوں نے ٹول پلازہ کی حد عبور کرتے ہوئے ان پر گاڑی چڑھا دی جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ چار ماہ تک ایف آئی ار کو اور خاتون کی شناخت کو خفیہ کیوں رکھا گیا ؟ کیا اب شناخت اس لیے ظاہر کی گئی ہے کہ اب سارے معاملات طے ہو چکے ہیں؟

ٹرافی ہنٹنگ: مارخور سے ہاتھی تک

ماخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔ آج کی نوجوان نسل کی اکثریت نے مارخور کو فلموں ڈاکو منٹریز یا پھر چڑیا گھر میں دیکھا ہے۔ یہ پالتو جانور نہیں۔ شمالی علاقہ جات کے پہاڑی جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ یہ سانپ کو کھا جاتا ہے۔ اس کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔ حکومت اس کی بقا کے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ایک طرف مارخور کی نسل نایاب ہو رہی ہے دوسری طرف اس کے شکار کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ چندماہ قبل مارخور کے شکار کے لائسنس کی آج تک کی سب سے بڑی بولی لگی۔ یہ امر تعجب خیز ہے کہ ایک طرف مارخور کی نسل کا تحفظ کیا جارہا ہے دوسری طرف اس کا شکار ہوتا ہے۔ کیا بہت پیسہ ملتا ہے کہ نسل پر کمپرومائز کر لیا جاتا ہے؟۔

چترال : امریکی شہری نے ماخور کا شکار کرلیا - Pakistan - AAJ
آج تک کا مہنگا ترین لائسنس امریکی ہنٹر ڈیرن جیمز مل مین نے دو لاکھ 32ہزار ڈالر میں حاصل کیا تھا۔ پاکستانی کرنسی میں یہ ساڑھے 6کروڑ روپے بنتے ہیں۔ جو مارخور شکار کیا گیا اس کی عمر نو سال چھ ماہ تھی۔ مارخور کے سینگوں کا سائز45انچ تھا۔ سینگ اور مارخور کی کھال شکاری بڑے فخر اور اہتمام سے اپنے ڈرائنگ رومز میں سجاتے ہیں۔ جس موقع پر جیمز مل مین نے لائسنس حاصل کیا اس دوران تین مزید لائسنس بھی جاری ہوئے تھے۔ پاکستان میں ہر سال مختلف دورانیے میں 12لائسنس جاری ہوتے ہیں۔ جیمز مل نے چترال میں سیزن کا پہلا شکار کیا۔ہم نے آپ کے سامنے سوال رکھا تھا کہ ایک طرف مارخور نایاب ہو رہا ہے دوسری طرف اس کے شکار کی اجازت کا کیا مطلب؟ جی بالکل یہ غلط نہیں ہے۔

روسی باشندہ مسٹر ڈینس موروزوف نے چترال میں قومی جانور مارخور کا کامیاب شکار  کیا – Awaz-e-Chitral

لائسنس خریدنے والا آزاد نہیں ہو جاتا کہ جہاں چاہے جائے شکار تلاش کر کے پھڑکا دے۔ محکمہ جنگلی حیات والے بوڑھے مارخور کو پکڑ کر شکاری کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس کی رسی کھول دی جاتی ہے۔ عمرِ پیری کو پہنچے مارخور میں ہمت ہو تو وہ بھاگ جائے۔ کتنا بھاگے گا۔شکار کے نشانے پر اس نے آنا ہی ہوتا ہے۔ ایسے مارخورٹرافی ہنٹنگ میں استعمال ہوں تو کوئی حرج ہی کیا ہے۔
اب ہاتھیوں کی ٹرافی ہنٹنگ کی دلچسپ کہانی سامنے آئی ہے۔ جو کئی تنازعات ، تلخیاں اور دلچسپیاں لئے ہوئے ہے۔ کہانی جنوبی افریقہ کے26ستائیس لاکھ کی آبادی کے ملک بوٹسوانا سے شروع ہوئی جو برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی سے ہوتی ہوئی امریکہ جا پہنچی ہے۔

Latest News By HamariWeb : پاکستان کا قومی جانور مار خور پہاڑوں پر رہنا  کیوں پسند کرتا ہے؟ جانیں اس کے بارے میں دلچسپ معلومات
بوٹسوانا میں ہاتھیوں کی بہتات ہو گئی۔ حکومت کی جانب سے ٹرافی ہنٹنگ ہو رہی تھی۔ ٹرافی ہنٹنگ بوٹسوانا حکومت کا ایک بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور آسٹریلیا کی طرف سے ہاتھیوں کے شکار کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی جا رہی ہے بلکہ قانون سازی بھی ہورہی ہے۔ چند ماہ قبل جرمنی کی وزارت ماحولیات نے ٹرافی ہنٹنگ پر پابندی کی تجویز پیش کی تو بوٹسوانا کے صدر کویٹسی ماسیسی تلملا اٹھے انہوں نے جرمن میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ اس اقدام سے ان کے ملک کے لوگ زبوں حال ہو جائیں گے۔ صدر صاحب نے انٹر ویو میں یہ دھمکی بھی دیدی کہ 20ہزار ہاتھی جرمنی میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ ماسیسی شاید جرمنوں کے اعصاب آزمانا چاہتے تھے کہ ان کو سنبھال کر دکھائیں۔ برطانیہ میں جب پابندی حق میں قانون سازوں نے ووٹ دیا تو بوٹسوانا کے جنگلی حیات کے وزیر ڈومینروینی میتھم کھولو نے دس ہزار ہاتھی ہائیڈپارک میں لے جاکر چھوڑنے کی دھمکی دی تھی تاکہ انگریز ہاتھیوں کے ساتھ رہنے کا مزا چکھ سکیں۔ صدر موکویٹسی ماسیسی کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی تعداد تحفظ کی کوششوں کے نتیجے میں بہت زیادہ بڑھ گئی تھی مگر ان کے شکار کی وجہ سے ان کی حد سے زیادہ بڑھتی تعداد کو قابو میں لانے میں مدد ملی۔بوٹسوانا میں دنیا کی ہاتھیوں کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بوسٹوانا میں 130,000 سے زیادہ ہاتھی موجود ہیں۔

افریقی ملک بوٹسوانا میں ہاتھی کے شکار کا سیزن شروع ہوگیا
صدر ماسیسی کے بقول  ہاتھیوں کے ریوڑ املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے، فصلیں کھا رہے تھے اور رہائشیوں کو روند رہے تھے۔بوٹسوانا اس سے قبل ہمسایہ ملک انگولا کو 8,000 ہاتھی دے چکا ہے، اور موزمبیق کو ان کی آبادی میں کمی کے بعد مزید سینکڑوں ہاتھیوں کی پیشکش کر چکا ہے۔بوٹسوانا اور دیگر جنوبی افریقی ممالک امیر مغربی باشندوں سے بہت پیسہ کماتے ہیں جو جانوروں کے شکار یا ٹرافی ہنٹنگ کے اجازت نامے یا لائسنس کے لیے ہزاروں ڈالر ادا کرتے ہیں اور پھر اس کا سر یا جلد ٹرافی کے طور پر اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں۔جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ عمل ظالمانہ ہے اور اس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔بوٹسوانا کے جنگلی حیات کے وزیر نے کہا کہ ’کچھ علاقوں میں، لوگوں سے زیادہ یہ ہاتھی ہیں۔ وہ اپنے راستے میں آنے والے بچوں کو مار رہے ہیں۔ وہ کسانوں کی فصلوں کو روندتے اور کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں کو قحط کا سامنا ہے۔ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل کی 2021 ء کی رپورٹ کے مطابق، جرمنی افریقی ہاتھیوں کی ٹرافیوں اور مجموعی طور پر شکار کی ٹرافیوں کا یورپی یونین کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔بوٹسوانا نے 2014ء میں اس مشق پر پابندی عائد کی تھی، لیکن مقامی کمیونٹیز کی جانب سے دباؤ کے بعد 2019ء میں پابندی ہٹا دی گئی تھی۔ملک اب سالانہ شکار کا کوٹہ جاری کرتا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ لائسنس یافتہ اور سختی سے کنٹرول شدہ ہے۔بر سبیل تذکرہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ افریقہ کے کئی ممالک میں شیر کی ٹرافی ہنٹنگ بھی ہوتی ہے۔

افریقی ملک کی جرمنی کو 20 ہزار ہاتھی بھیجنے کی دھمکی

سپر ٹینک سی وائز جائنٹ

دنیا کا سب سے بڑا مسافربحری جہاز آئیکن آف داسیز ہے۔یہ ٹائٹینک سے پانچ گنا زیادہ بڑا جہاز ہے۔ اس میں بیک وقت 7ہزار 600 مسافر سفر کر سکتے ہیں ۔گزشتہ دنوں اس نے اپنا پہلا سفر مکمل کیا ۔جہاز رانی کی دنیا میں یہ خوشگوار اور شاندار تجربہ رہا۔آئیکن آف دا سیز پر اگلی ایپیسوڈ میں تفصیل سے بات کریں گے ۔اج سپر ٹینک وائز جائنٹ کی بات کرتے ہیں جو اس سے بھی بڑا سمندر میں تیرنے والا جہاز ہو گزرا ہے۔ آج وہ کہاں ہے؟کیسے ایک بار جلا ڈوبا پھر تعمیر ہوا. اس کے آغاز کار اورمیوزیم کا حصہ بننے تک کی کہانی آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔


 سی وائز جائنٹ کو دنیا کا سب سے بڑا جہاز ،انسانوں کا بنایا گیا سب سے بڑا جہاز،سب سے زیادہ تیل لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا جہاز جیسے کئی خطابات ملے۔ اس جہاز کے کئی اور نام بھی تھے جیسا کہ ہیپی جائنٹ، جاہرے وائکنگ، نوک نیوس اور مونٹ جبکہ اسے سُپر ٹینکر بھی کہا جاتا تھا۔

جہاں یہ بحری جہاز لاکھوں لیٹر تیل لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا وہیں یہ اپنے انتہائی اتنے بڑے حجم کی وجہ سے کئی بندرگاہوں میں داخل بھی نہیں ہو پاتا تھا۔ اور اپنے اس ہی حجم کی وجہ سے سوئز نہر اور نہر پانامہ جیسی کئی اہم سمندری گزرگاہیں عبور کرنے سے قاصر تھا۔

ایک موقع پراس جہاز کو عراق میں صدام حسین کی فوج نے بغیر کسی اشتعال اور وجہ کے حملہ کر کے آگ لگا دی جس کے باعث یہ ڈوب گیا تھالیکن ہر ناقابل فراموش سمندری داستان کی طرح، یہ تباہی اس جہاز کی کہانی کا اختتام نہیں تھا۔ اس کو دوبارہ بنایا گیا اور یہ اس کے بعد بھی کئی برسوں تک فعال رہا۔

اس سپر ٹینک کو ابتدائی طور پر  1979 میں جاپان کے شہر اوپاما میں واقع سومیتومو ہیوی انڈسٹریز شپ یارڈ میں بنایا گیا تھا۔
 اس جہاز کی تعمیر کا آرڈر ایک یونانی کاروباری شخصیت نے دیا تھا تاہم اس کی تیاری و تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس نے اسے خریدا نہیں۔البتہ 1981 میں ہانگ کانگ کے ایک بزنس مین ٹنگ چاؤ ینگ نے خرید لیا۔ وہ ایک سمندری جہازرانی کی کمپنی ’اورینٹ اوورسیز کنٹینر لائن‘ کے مالک تھے۔

اس کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے اصل ڈیزائن میں ایک اضافی سیکشن شامل کیا گیا تھا۔ہانگ کانگ کے ’میری ٹائم میوزیم‘ کے مطابق خریدنے کے بعد جہاز کے نئے مالک کو لگا کہ اس کو مزید بڑا ہونا چاہیے چنانچہ اس میں نیا حصہ جوڑ کر اس کو مزید بڑا کر دیا گیا جس کے بعد اس کی تیل لے جانے کی صلاحیت میں 140,000 ٹن کا مزید اضافہ ہو گیا۔

اس سپر ٹینکر کی لمبائی ریکارڈ 458.45 میٹر تھی۔ یہ ملیشیا کے ’پیٹروناس ٹاور‘ اور نیویارک کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی اونچائی سے بھی زیادہ لمبا تھا۔ یہ جہاز تقریباً چار ارب بیرل تیل لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا، جو ایک عام کار میں 10 بار سورج تک جا کر واپس آنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہ جہاز آج کے زمانے کے سب سے بڑے کروز جہاز ’آئیکون آف دی سی‘ سے تقریباً 100 میٹر جبکہ مشہورِ زمانہ ’ٹائٹینک‘ سے 200 میٹر لمبا ہے۔ اگر اس جہاز کو پورا بھر دیا جائے تو اس کا وزن 657,000 ٹن ہو جاتا اور اتنے بھاری جہاز کو چلانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 220 ٹن ایندھن لگتا تھا۔ جہاز کے کپتان کے مطابق، اس کو روکنے کے لیے کم از کم آٹھ کلومیٹر پہلے بریک لگانا پڑتا تھا۔

جب  1998 میں بی بی سی نے اس جہاز کا دورہ کیا تو جہاز کے کپتان سریندر کمار موہن نے بتایا کہ یہ جہاز سمندر میں تقریباً 16 ناٹس یا تقریباً 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتا ہے۔ جہاز کے کپتان کے مطابق، اس کو کسی مخصوص مقام پر روکنے کے لیے کم از کم آٹھ کلومیٹر پہلے بریک لگانا پڑتی تھی۔ اور اس کو مخالف سمت میں موڑنا بھی ایک مشکل عمل ہوتا تھا اور اس کے لیے تین کلومیٹر کی جگہ چاہیے ہوتی تھی۔  جس جہاز کا بی بی سی نے دورہ کیا تھا وہ دوبارہ تعمیر شدہ تھا۔

مشرق وسطیٰ اور مغرب کے درمیان تیل کی تجارت کے عروج پر، اس سپر ٹینکر نے پوری دنیا میں نہ صرف تیل کی ترسیل کا کام کیا بلکہ یہ ایک تیرتے ہوئے بڑے گودام کے طور پر بھی کام آیا۔

اس جہاز نے اپنی آخری مہم مئی 1988 میں اس وقت پوری کی جب وہ ایرانی جزیرے لارک پر لنگر انداز تھا۔ اس وقت خلیج فارس میں عراق اور ایران کے درمیان جنگ اپنے آخری مراحل میں تھی۔ بنا کسی وارننگ کے صدام حسین کی فوج نے اس پر بموں سے حملہ کر دیا۔اس کے نتیجے میں جہاز میں آگ لگ گئی اور وہ ڈوب گیا۔

جنگ کے خاتمے کے بعد، ناروے کی ایک کمپنی نارمن انٹرنیشنل نے اس جہاز کو بچانے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ اور  1991 میں 3,700 ٹن سٹیل کا استعمال کرتے ہوئے اس کی دوبارہ مرمت کی گئی اور اسے دوبارہ تیرنے کے قابل بنا دیا گیا۔ مگر اب اس کا نام سی وائز جائنٹ نہیں رہا تھا۔ اب اس کا نام ہیپی جائنٹ تھا۔

دیو قامت جہاز کا زوال 
مرمت کے بعد یہ سپر ٹینکر ایک بار پھر فعال ہو گیا مگر اب یہ مرچنٹ ٹرانسپورٹ فرم ’کے ایس‘ کی ملکیت تھا اور اس کا نام بدل کر ’جاہرے وائکنگ‘ رکھ دیا گیا۔

مگر نوے کی دہائی میں جہاز رانی کی صنعت میں کم ایندھن خرچ کرنے والے ٹینکرز کا استعمال بڑھنے لگا تھا اور اس معاملے میں جاہرے وائکنگ کی شہرت کچھ خاص نہ تھی۔

2004 میں  میں اسے نارویجن فرم فرسٹ اولسن ٹینکرز کو فروخت کر دیا گیا۔ 2004 میں ناروے کی فرم نارویجین فرسٹ اولسن ٹینکرز نے اسے خرید کر ایک تیرتے ہوئے تیل کے گودام میں تبدیل کر دیا۔اس کے علاوہ، اس کا حجم اس کے زوال کی ایک اور وجہ بنی کیونکہ اپنے سائز کے باعث یہ سوئز کنال اور پانامہ کنال سے گزر نہیں سکتا تھا۔ 2004 میں ناروے کی ایک اور فرم نارویجین فرسٹ اولسن ٹینکرز نے اسے خرید کر ایک تیرتے ہوئے تیل کے گودام میں تبدیل کر دیا۔ اس کا نیا نام نوک نیوس رکھا گیا اور اسے قطر کے ساحل پر لے جایا گیا۔

بالآخر  2009 میں اس نے کام بند کر دیا۔ اس وقت اس کا نام ایک بار پھر بدل کر ’مونٹ‘ رکھ دیا گیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے یعنی سکریپ میں ڈھالنے کے لیے اسےانڈیا لے جایا گیا۔ سی وائیز جائنٹ کی آخری آرام گاہ وہی بندرگاہ بنی جہاں اس کو دنیا کے سب سے بڑے جہاز کا خطاب ملا تھا یعنی ہانگ کانگ۔ اب اس کا صرف 36 ٹن کا دھانچہ بچا ہے جو ہانگ کانگ کے میری ٹائم میوزیم میں رکھا گیا ہے۔