اہم خبریں

احمد شریف چودھری .... میجر جنرل سے اب لیفٹیننٹ جنرل آرمی چیف کب؟

میجر جنرل سے اب لیفٹیننٹ جنرل فل جنرل کب ؟ لیگی میرٹ پر آرمی چیف اور فیلڈ مارشل

فوج میں ترقیاں: 12 میجر جنرلز کی ایک ساتھ 'غیر معمولی' ترقیاں اہم کیوں ہیں؟  - BBC News اردو
 عظیم سائنس دان سلطان بشیر الدین محمود کے صاحبزادے ان کو القاعدہ سے تعلق الزام میں گرفتار کیا گیا تھا

ڈی جی ائی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ ان کی طرف سے گزشتہ دنوں ایک دھواں دار پریس کانفرنس کی گئی جس میں تحریک انصاف کا نام لیے بغیر اور عمران خان کا ذکر کئے بغیر کہا گیا یہ انتشاری ٹولہ ہے جھوٹ پروپیگنڈا کرنا اس کا وطیرہ ہے۔ ان کی طرف سے نو مئی 2023 کو دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے جلاؤ گھیراؤ کیا گیا۔

سانحہ 9 مئی، لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 فوجی افسر برطرف کر دیئے: ڈی جی آئی ایس پی  آر

شہداء کی یادگاروں کی  بے حرمتی کی گئی ان کے ساتھ نہ تو بات ہوگی نہ معاف کیا جائے گا۔ انہوں نے جو کچھ کیا اس کی سزا ان کو بھگتنا پڑے گی۔ اس پریس کانفرنس کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے بھی ایسا ہی جواب آیا تھا۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور دیگر کئی پارٹیوں حلقوں اور طبقوں کی طرف سے اس پریس کانفرنس کی بھرپور حمایت کی گئی اس کے دو چار روز کے بعد میجر جنرل احمد شریف چوہدری کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی کچھ لوگوں کی طرف سے جو تحریک انصاف کے حامی مانے جاتے ہیں وہ اس کو جوڑ رہے ہیں کہ ان کو پریس کانفرنس کرنے کا انعام دیا گیا ہے حالانکہ ان کے ساتھ ایک اور میجر جنرل کو بھی لیفٹیننٹ جنرل بنایا گیا ہے۔ ویسے جس طرح سے احمد شریف چوہدری کی طرف سے پریس کانفرنس کی گئی جس کو مسلم لیگ نون کے حلقوں نے بہت زیادہ پسند کیا اس سےیوں لگتا ہے کہ ائندہ اگر مسلم لیگ نون کے بس میں ہوا تو احمد شریف چوہدری نہ صرف پاکستان کے آرمی چیف بن سکیں گے بلکہ مسلم لیگ نون جتنا آج ان سے خوش ہوئی ہے ان کو فیلڈ مارشل کا بعید نہیں کہ رینک بھی دے دے ۔میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل ہو چکے ہیں۔ احمد شریف پاکستان کے مایا ناز سائینسدان سلطان بشیر الدین محمود کے صاحبزادے ہیں۔ سلطان بشیر الدین محمود کو بھی 2001 میں نائن الیون کے بعد  القاعدہ کے ساتھ تعلقات کے شبہ اور الزام میں گرفتار کیا گیا تھا مکمل انکوائری ہوئی، الزام ثابت نہ ہو سکا تو ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔
سلطان بشیر الدین محمود کو جب گرفتار کیا گیا تھا تو گرفتار کرنے والوں کو  ان کے طالبان اور القاعدہ کے ساتھ رابطوں کا اتنا ہی یقین تھا جتنے وثوق کے ساتھ احمد شریف چوہدری پریس کانفرنس کے دوران کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کے نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔جوڈیشل کمیشن تو وہاں بنتا ہے جہاں کسی قسم کا شک ہو شبہ ہو ابہام ہو۔اگر ہمارے ادارے انکوائری نہ کرتے  محض گرفتار کرنے والوں کے یقین پر سلطان بشیر الدین محمود کو سزا دے دی جاتی؟


احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس سے مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیاں بہت ہی زیادہ اطمینان اور خوشی کا اظہار کر رہی ہیں کیونکہ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہر ہاتھ ڈالا گیا اور وہ سیاست سے آؤٹ ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ پاک فوج کے اندر حکمرانوں کےنا پسندیدہ فوجی افسروں کو حتی الوسع  کوشش ہوتی ہے کہ سائیڈ لائن کر دیا جائے اور پسندیدہ افسران کو ممکنہ حد تک نوازاجائے ۔میاں نواز شریف کے حوالے سے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں سندھ میں آپریشن کیا گیا۔ اس کی کمانڈ کر رہے تھے کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ،بے نظیر بھٹو نے کچھ لوگوں کی سفارش کی تو آصف نواز جنجواعہ کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا کہ میڈم پرائم منسٹر کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی ۔اگر ایک کے ساتھ رعایت ہوگی تو پھر سب کے ساتھ ہوگی ۔بے نظیر بھٹو کی طرف سے ان کی اس جرآت رندانہ پر خفگی کا اظہار کیا گیا جبکہ میاں نواز شریف صاحب تک یہ خبر پہنچی تو وہ کانوں تک راضی ہوئے ان کی حکومت آئی تو انہوں نے بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو کھڈے لائن لگوانا تھا تو انہوں نے آصف نواز جنجوعہ کو آرمی چیف بنا دیا لیکن جب وہ میاں نواز شریف کی ہر بات ماننے پر آمادہ نہ ہوئے تو ان کے مابین بھی تعلقات میں دراڑیں آنے لگیں 


جنرل عاصم  منیرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو بشریٰ بیگم کے کرپشن میں ملوث لوگوں کی پشت پناہی کے حوالے سے بات کی تو عمران خان نے ان کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے الگ کر دیا ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل عاصم  منیر نے اس کا برا منایا اور یہ خبر میاں نواز شریف صاحب تک پہنچی اور جب اس پوزیشن میں آئے کہ آرمی چیف ان کے کہنے پر بن سکتا ہے تو جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنا دیا گیا اور اس کے بعد عمران خان ان کی پارٹی جس جگہ پر ہے اس کو دیکھتے ہوئے میاں نواز شریف سے زیادہ اور کون مطمئن اور خوش ہوگا اس کے بعد میاں نواز شریف پاکستان بھی تشریف لے ائے انتخابات بھی جیت لیے۔


ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری جو اب لیفٹیننٹ جنرل ہیں  ان کی طرف سے تحریک انصاف کے خلاف ہونے والی پریس کانفرنس سے مسلم لیگ نون اتنی زیادہ مطمئن خوش اور سرشار ہے کہ اگلے چند سال یہ اس پوزیشن میں ہوئے کہ آرمی چیف ان کی مرضی کا لگ سکے تو آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے آج کی مسلم لیگ  کی سرشاری کو دیکھتے ہوئے جنرل احمد شریف آرمی چیف ہوں گے بلکہ مسلم لیگ نون اتنی زیادہ خوش ہے کہ ان کو ہو سکتا ہے کہ فیلڈ مارشل کا رینک بھی دے دے۔

ٹھگوں کی نانی

ایک بڑھیا تھی۔ وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پاتا پہن کر کہیں جا رہی تھی۔

 گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ 

باہوں میں گنگن تھے اور گلے میں ہار تھا۔ مگر یہ سارے زیور تھے سونے کے۔ بے چاری بڑھیا کے پیچھے دو ٹھگ لگ گئے۔ دونوں بڑے چال باز، مکار اور عیار تھے۔ دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔دونوں چاہتے تھے کہ بڑھیا سے سارے کا سارا زیور ہتھیا لیں۔ لیکن بڑھیا نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے، وہ ٹھگ تو ٹھگ تھے ہی…. یہ بڑھیا ان کی بھی نانی تھی۔

ایک ٹھگ نے آگے بڑھ کر علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ بڑی اماں کہاں جا رہی ہو؟

بیٹا! شہر جا رہی ہوں بڑھیا نے جواب دیا۔ 

پھر تو خوب ساتھ ہوا۔ بڑی اماں ہم بھی تو شہر ہی جارہے ہیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔

ہاں بیٹا! اچھا ہوگیا۔ بڑھیا نے کہا۔ 

 تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک ٹھگ بولا۔بڑی اماں کوئی کہانی ہی سناﺅ جس سے سفر کی تھکان معلوم نہ ہو اور وقت بھی جلد کٹ جائے۔

 بیٹا! میں بھلا کون سی کہانی سناﺅں؟ تم ہی کچھ کہو۔

ہم سنائیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ مگر بڑی اماں ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ اگر تم نے ہماری کہانی کو جھوٹ کہا تو ہم تمہارے کنگن اتار لیں گے۔ 

بڑھیا نے ان کی یہ شرط مان لی اور ایک ٹھگ کہانی سنانے لگا۔ 

بڑی اماں! ہماری ایک گائے تھی۔ بڑی خوب صورت موٹی موٹی آنکھیں تھیں اس کی۔ لمبے لمبے کان تھے۔ دودھ اتنا دیتی تھی کہ ہم دوہتے دوہتے تھک جاتے تھے لیکن دودھ پھر بھی ختم نہ ہوتا تھا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ اگر ہم اس کے داہنے سینگ پر بیٹھ جاتے تو مغرب میں پہنچ جاتے اور جب بائیں پر بیٹھتے تو مشرق میں آجاتے۔ پاکستان بننے پر جب ہم قافلے کے ساتھ پاکستان آرہے تھے تو ہم پر فسادیوں نے حملہ کر دیا۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور ہماری گائے کو لگی جس سے بے چاری وہیں ڈھیر ہو گئی۔

بڑا افسوس ہوا۔ بڑھیا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

بڑی اماں! اب تم کچھ سناﺅ۔ ٹھگ نے تیر نشانے پر نہ لگتے دیکھ کر کہا۔

میں سناﺅں؟ بڑھیا نے کہا۔ اگر تم نے میری بات کو غلط جانا تو تمہیں ایک سو روپیہ دینا پڑے گا۔

ٹھگو نے کہا۔ ہمیں منظور ہے۔

تو پھر سنو بیٹوں! جب میری شادی ہوئی تو میرے والد نے ایک بیل بھی مجھے جہیز میں دیا۔ بڑا اچھا بیل تھا۔ کسی کو کچھ نہ کہتا تھا، ایک دفعہ یوں ہی باہر کھیت میں کوئی دوسرا بیل اس سے لڑ پڑا۔ ایسا لڑا کہ ہمارے بیل کے ماتھے پر اچھا خاصا زخم ہو گیا ہم نے بہیترے علاج کرائے لیکن زخم نہ بھر سکا…. کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بنولے کا دانہ اس کے زخم میں کہیں سے گر گیا۔ ہوتے ہوتے وہ اچھا خاصا پودا بن گیا۔ اس میں ایسی نفیس کپاس لگی کہ تمہیں کیا بتاﺅں، وہ کپاس ہم نے جمع کرنی شروع کر دی۔ اتنی کپاس جمع ہو گئی کہ اب گھر میں جگہ نہ رہی، گھر گھر ہمارے بیل کے چرچے ہونے لگے، بڑی بڑی دور سے لوگ اس انوکھے بیل کو دیکھنے کے لیے آتے۔ اس کی کپاس کو دیکھتے اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ اب ہمارے پاس اتنی زیادہ کپاس ہو گئی کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ہم نے اسے بیلوا کر کاٹنا شروع کیا اور اس کا کپڑا لتا بنانے لگے، کئی قسم کے کپڑے بنوائے، جن میں کھیس بھی تھے، ان کھیسوں میں سے دو کھیس کہیں چوری ہو گئے۔ بیٹا! خدا جھوٹ نہ بلوائے، یہ کھیس جو تم اوڑھے ہوئے ہو، وہی ہیں جو چوری ہوئے تھے۔ مہربانی کر کے یہ کھیس اتار دو۔ 

دونوں ٹھگوں نے اپنے کھیس بڑھیا کو دے دیے اور کرتے بھی کیا۔ شرط جو تھی۔ مجبور تھے۔ 

ہاں تو بیٹا! بڑھیا نے پھر کہانی کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم نے اس کپاس میں سے ململ کے تھان بنوائے۔ ململ کےتھانوں میں سے ایک تھان گم ہو گیا۔ یہ جو تمہاری پگڑیاں ہیں، اسی تھان کی ہیں، یہ بھی اتاردو۔

انہوں نے پگڑیاں بھی اتار دیں۔ نہ اتارتے تو شرط کے مطابق سو روپیہ دیتے۔اب شہر نزدیک ہی تھا۔ ایک ٹھگ بولا۔ بڑی اماں! بھوک لگ رہی ہے۔

اچھا بیٹا! شہر آیا ہی سمجھو۔ مجھے اپنے کنگن بیچنے ہیں۔ کنگن بیچ لیں اور پھر آرام سے کسی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔

وہ خاموش ہو گئے اور سوچنے لگے کہ بڑھیا کنگن بیچ لے پھر کوئی داﺅ چلائیں گے۔ وہ بڑھیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی دماغی سڑکوں پر تدبیروں کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اب وہ شہر میں پہنچ گئے تھے۔ ہر طرف خوب چہل پہل تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ 

بڑھیا نے اپنے کنگن اتار لیے اور ان سے کہنے لگی: بیٹا! سنار کی دکان آ گئی ہے۔ تم یہاں بیٹھو میں اپنے کنگن بیچ لوں۔

 وہ سنار کی دکان کے قریب ہی بیٹھ گئے اور بڑھیا سنار کی دکان پر پہنچ گئی۔

 کیا چاہیے اماں تمہیں؟ سنار نے پوچھا۔ 

میں اپنے دو نوکر بیچنا چاہتی ہوں وہ سامنے بیٹھے ہیں۔

 نوکروں کی تو ہمیں بہت ضرورت ہے۔ سنار نے کہا۔ بولو اماں! کیا قیمت ہے ان دونوں کی؟

 تین سو روپے۔ بڑھیا نے کہا اور بات دو سو روپے پر طے ہو گئی۔

 میں نوکروں سے پوچھ لوں کہ ان میں سے ایک بکنا چاہتا ہے یا دونوں؟ بڑھیا نے کہا اور پھر بلند آواز سے پوچھنے لگی۔ بیٹا! ایک بیچوں یا دونوں؟ 

ادھر سے جواب ملا۔ اماں! دونوں بیچ دے۔ ایک کو کہاں رکھے گی؟

 بڑھیا نے دو سو روپوں میں دونوں ٹھگوں کو سنار کے ہاتھ بیچ دیا اور ان کے پاس آ کر کہنے لگی۔

 بیٹا! تم یہیں بیٹھو۔ میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔ 

کچھ مٹھائی بھی لیتی آنا اماں! دونوں نے کہا اور بڑھیا اچھی بات کہہ کر نو دو گیارہ ہو گئی۔ 

تھوڑی دیر بعد سنار نے انہیں بلایا اور دریاں جھاڑنے کا حکم دیا تو ان کو حقیقت معلوم ہوئی اور انہوں نے کہا۔ ارے وہ تو ہماری بھی نانی نکلی۔

نو مئی کیسے ہوا۔۔۔۔

جنوری 1933 کی بات ہے۔۔۔
سیاسی جوڑ توڑ کر کے ایڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر تو بن گیا لیکن اسے مطلق اقتدار درکار تھا۔ 27 فروری 1933کو جرمن پارلیمنٹ ’’ریشتاغ‘‘ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی،آتش زنی کا الزام براہ راست کمیونسٹوں پر لگایا گیا تھا۔ ہٹلر  حکومت کے ایک طاقتور وزیر ہرمن گورنگ نے دعویٰ کیا تھا کہ آگ لگنے سے پہلے ہوائی جہازوں نے برلن میں کمیونسٹ لٹریچر بکھیر دیا تھا۔ اس آتش زنی کو بنیاد بنا کر ہٹلر نے مطلق اختیارات حاصل کر لئے اور اپنی پارٹی کے مسلح جتھوں کی مدد سے تمام سیاسی مخالفین کو ملیامیٹ کر دیا۔’’ ریشٹاگ فائر ڈیکری‘‘ نامی قانون پاس کرکے آزادی اظہار رائے، اجتماع اور پریس پر پابندیاں عائد کردیں،فون ٹیپنگ کو قانونی قرار دیکر پولیس کو تفتیش کی حدود و قیود سے آزاد کردیا،سول آزادی پر قدغنیں لگ گئیں۔۔۔ کئی برس بعد ہٹلر کے دست راست گوئرنگ نے اپنے زانو پر ہاتھ مارتے ہوئے اقرار کیا تھا کہ ’’ریشتاغ‘‘ میں اس نے آگ لگائی تھی۔۔۔
ایک اور واقعہ سنیں۔۔۔
مارچ 1924کی بات ہے۔۔۔
سوویت یونین میں لینن کی موت کے بعد اسٹالن نے حکومت تو سنبھال لی لیکن قدآور بالشیوک رہنماؤں کی موجودگی میں اس کے آمرانہ عزائم ادھورے تھے۔۔۔یکم دسمبر1934 کو پولٹ بیورو کا رکن سرگئی کیروف قتل کر دیا گیا۔۔۔ کیروف کے قتل کی آڑ میں اسٹالن نے مقدمات کا سلسلہ شروع کیا اور کمیونسٹ پارٹی کی پوری قیادت قتل کر دی، پھر سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور فوجی قیادت کے خلاف تطہیری مہموں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں لاکھوں افراد قتل ہوئے اور اس طرح اسٹالن  ایک قتل کی آڑ میں مکمل آمریت نافذ کرکے سیاہ وسفید کا مالک بن گیا۔۔۔
چلو آگے چلتے ہیں۔۔۔
ستمبر1999 کی بات ہے۔۔۔
یہ واقعہ بھی روس میں ہی پیش آیا،ولادی میر پیوٹن اس وقت نئے نئے وزیراعظم  بنےتھے۔۔۔ستمبر1999 کو ماسکو میں لوگوں کے گھروں میں   بھیانک بم دھماکے ہوئے،اس میں تین سو سے زائد لوگ مارے گئے دو ہزار کے قریب زخمی ہوئے،پیوٹن نے ان بم دھماکوں کا ذمہ دار چیچن علیحدگی پسندوں کو ٹھہرایا۔۔۔ اور چیچنیا پر حملہ کردیا،یہ جنگ کئی سال تک جاری تھی،ہزاروں افراد مارے گئے۔ اس وقت کی اپوزیشن نے یہ آوازبھی اٹھائی تھی کہ ان بم دھماکوں کی آزاد تحقیقات کی جائیں لیکن پیوٹن نے ایسا نہ ہونے دیا۔۔آخر تین رکنی کمیشن بنانا پڑا،انکوائری کے دوران ہی   کمیشن کے دو افراد کی اچانک موت ہوگئی،تیسرے کےخلاف کچھ مقدمات کھل گئے اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔۔۔بم دھماکے کرانے کا مقصد مقصد صرف یہی تھا عوام کو خوفزدہ کردیا جائے،ڈرایا جائے کہ آپکے ملک کو علیحدگی پسندوں سے خطرہ ہے،ملک کے ٹکڑےہوسکتے ہیں،ایسے میں صرف ملک اور عوام کو صرف پیوٹن ہی محفوظ رکھ سکتا ہے،اس مقصد میں پیوٹن کامیاب ہوگیا۔اس کے بعد پیوٹن ملک کے صدر بن جاتے ہیں، اوراب 2024 ہے،پیوٹن اب تک روس کے صدر ہیں۔ان بم دھماکوں کے بعد کچھ عرصے بعد انکشاف ہوا کہ یہ بم دھماکے روسی خفیہ ایجنسی نے ہی کرائے تھے۔۔۔ اہم بات،پیوٹن وزیراعظم بننے سے پہلے اسی خفیہ ایجنسی کے اہم عہدے پر تعینات تھے۔۔۔
چلو اب اٹلی چلتے ہیں۔۔۔
اکتوبر 1922 کی بات ہے۔۔۔
جعلی مارچ کر کے مسولینی وزیراعظم تو بن گیا لیکن اس کی خواہش مطلق العنان اقتدار کی تھی۔ جون 1923 میں اس نے آئین میں من مانی ترامیم کر کے ایسے انتخابی قوانین منظور کروا لئے جن سے اس کی دو تہائی اکثریت یقینی ہو گئی۔ اپریل 1924 کے انتخابات میں حسب توقع مسولینی بھاری اکثریت سے انتخاب جیت گیا۔ تاہم سوشلسٹ پارٹی کے رہنما جاکومو ماتیاوتی نے پارلیمنٹ میں سخت مزاحمت کی۔ ماتیاوتی کی تقریر اس قدر زوردار تھی کہ مسولینی بلبلا اٹھا۔ جاکومو ماتیاوتی کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی آڑ میں مسولینی کے لڑاکا دستوں نے ایسا قتل و غارت کیا کہ اٹلی میں مسولینی کا کوئی سیاسی مخالف باقی نہ رہا۔ عظیم مفکر گرامچی بھی داروگیر کی اس مہم میں گرفتار ہوا اور 1937میں اپنی موت تک قید رہا۔ چند سال بعد مسولینی نے تسلیم کیا کہ ماتیاوتی اس کے حکم پر قتل ہوا تھا۔۔۔
پڑوسی ملک بھارت چلتے ہیں۔۔۔
14فروری2019 کی بات ہے۔۔۔
آپکو یاد ہوگا،کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں دھماکہ خیز مواد سے لدی کار انڈین نیم فوجی دستے کے اہلکاروں سے بھری ایک بس سے جا ٹکرائی ۔۔۔ چالیس سے زائد اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔۔۔ بھارت کو پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، بعد میں انڈین فضایہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں فضائی بمباری کر کے جیش محمدی کی تربیت گاہ کو تباہ کرنے اور سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ گو کہ اس دوران  پاکستانی ائیرفورس نے انڈین ائیر فورس کا ایک طیارہ نارگرایاا اور اس کا پائلیٹ ابھینندن  پاکستان میں قید ہو گیا لیکن انڈیا میں اس کارروائی کو ’’پاکستانی شرارتوں کا مُنہ توڑ جواب‘‘ قرار دیا گیا تھا۔۔۔ چند دنوں بعد جموں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے مودی حکومت کا بھانڈا پھوڑ دیا اور کہا یہ حملہ خود مودی حکومت نے کرایا تھا اور انہیں چپ رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔۔۔
یہ سب کیا ہے ۔۔۔ ؟
ایسے حادثات یا سانحات کو ’’ فالس فلیگ آپریشن‘‘ کہا جاتا ہے۔۔۔طاقتور لوگ کسی نہ کسی سانحہ کی آڑ میں اپنے مقامصد،اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ اور سانحہ کے ذمہ دار بھی خود ہوتے ہیں۔۔۔سانحہ9مئی بھی ایسے ہی ہوا تھا،میری تحریر ریکارڈ پر ہے،دیکھتے رہنا بہت جلد کوئی اعلیٰ عہدیدار سامنے آئے گا اور اعتراف کرے گا کہ جلاؤگھیراؤ خود انہوں نے کرایا تھا،جناح ہاؤس  اور دیگر اہم عمارتوں اور تنصیبات پر انکے اپنے بندوں نے حملہ کیا تھا۔۔۔بس کچھ عرصہ انتطار کریں۔۔۔۔

ایرانی صدر کا دورہ اور چندا ماموں کو سلام

”ابراہیم رئیسی اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دنوں میں پاکستان آگئے۔ کیا یہ حیران کن نہیں ہے؟۔ یہ دورہ ایران کے لیے ضروری بلکہ ان کی مجبوری تھا۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار تھا ہی نہیں۔ کساد بازاری، بیروزگاری پاکستان ہی کا نہیں، عالمی مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان میں اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے، دیگروجوہات بھی ضرور ہیں۔ بھارت کاچندریان چاند کی جانب روانہ ہوا تو ہم پاکستانی شرمندہ ہو رہے تھے کہ ایٹم بنانے والا اسلامی دنیا کا واحد ملک چندریان جیسا سیٹلائیٹ نہ بنا سکا۔ جب آئی کیوب قمر زمین سے چاند کی طرف جانے کے لیے روانہ ہوا تو ہمارا سر فخر سے بلند سینہ مسرت و انبساط سے چوڑا ہو گیا۔ آج پاکستان چاند پر اترا تو بھارت سے تعلق رکھنے والے دوست جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل ہیں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مبارکبادیں دے رہے ہیں“۔


یہ گفتگو پاکستان سے ہزاروں میل دور کینیڈا میں مقیم مطلوب وڑائچ کر رہے تھے۔مطلوب وڑائچ کی زندگی کا زیادہ حصہ یورپ میں گزرا ہے۔ یورپ میں ان کے ریسٹورنٹس کی ایک چین تھی جس کا مرکز سوئٹزرلینڈ تھا۔ یہ پیپلز پارٹی اوورسیز یوتھ ونگ کے صدر رہے۔ بے نظیر بھٹو کے قریب رہے۔ آصف زرداری کے دوست جو انہیں بھائی سمجھتے تھے۔ سوئٹزر لینڈمیں چلنے والے، بے نظیر بھٹو اور زرداری پر مقدمات میں ان کو پاور آف اٹارنی دی گئی تھی۔ پاکستان سے بے نظیر بھٹو آصف زرداری جاتے تو ان کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ فاروق ایچ نائیک اور دیگر وکلا کیسز کی پیروی کیلئے  جاتے وہ وہیں ان کے ہاں ٹھہرتے۔

Matloob Warraich official - YouTube
پاکستان سے بہت دور بیٹھ کر بھی ان کی سیاسی معاشی اور دیگر احوال پرنظر ہوتی ہے۔ درجن بھر کتابیں لکھ چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں یورپ اورسنٹرل ایشیا کے دورے پر تھے۔ سوئٹزر لینڈکے بعد آذربائیجان ازبکستان روس گئے۔ تاشفند سمر قند بخارا کی سیاحت کی۔ نوائے وقت کے مستقل کالم نگار ہیں۔ان سے گزشتہ روز بات ہوئی۔
ایرانی صدر کے دورے سے متعلق انہوں نے جو بتایا حیران کن تھا مگر جنگ کے دوران ابراہیم رئیسی کا کسی بھی غیر ملکی دورے پر جانا واقعی سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جب کہا کہ اس دورے کے سوا ایران کے پاس کوئی چارہ تھا ہی نہیں۔ اس پر میں نے حیرانی سے ”ہیں؟“ کہا تو انہوں نے جو بتایا وہ قابلِ غور ہے۔
اگست 1965ء میں ہونیوالا آپریشن جبرالٹر پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی کی انتہا کا مظہر ہے۔ اس سے قبل دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں خرابی کا آغاز ہو چکا تھا۔ صدر ایوب خان کو اندیشہ تھا کہ معاملات جنگ کی طرف جا سکتے ہیں ۔ ایوب خان کو شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی بھارتی لیڈروں سے رابطوں اور تعلقات کا علم تھا۔مئی 1964ء  میں انتقال کر جانے والے  وزیراعظم جواہر لال نہروکی شہنشاہ ایران سے گہری دوستی تھی۔ ایوب خان کو خدشہ تھا کہ جنگ ہوئی تو ایران بھارت کا ساتھ دے گا۔ ایوب خان ہر صورت ایران کو ممکنہ جنگ سے الگ رکھناچاہتے تھے۔ اس مقصدکے لیے ذوالفقار بھٹو کو بروئے کار لایا گیا۔ وہ نصرت بھٹو سے شادی کی باعث بھی ایران سے قریب تھے۔ بھٹو صاحب کو ایران بھیجا گیا۔ انہوں نے ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دینے کی درخواست کی۔ شہنشاہ ایران نے کہا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ہماری دو شرائط ہیں۔ فطری طور پر بھٹو نے فوراً کہا ”جو شرائط ہیں بتایئے“۔ شہنشاہ نے  پہلی شرط یہ بتائی کہ پاکستان اور ایران کے مابین متنازعہ سرحدی علاقے ہمارے حوالے کر دیئے جائیں(ان علاقوں میں تانبے کی کانیں ہیں)۔
”دوسری کیا شرط ہے“۔  بادشاہ نے اپنی بات کے دوران توقف کیا تو بھٹو نےپوچھا۔ ”پاکستان ایران کی سرحد کے ساتھ دو سو میل تک  تیل کیلئےکنویں نہیں کھودے گا“۔ بھٹو نے صدر ایوب خان تک یہ شرائط پہنچائیں تو ان کی طرف سے جواب ہاں میں تھا ۔یوں ایران اور پاکستان کے مابین معاہدہ طے پا گیا جو تیس سال کے لیے تھا۔65 میں جنگ ہوئی تو ایران کی طرف سے  مبینہ معاہدے کے مطابق کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا گیا ۔ یہ تیس سال ختم ہوئے تو1995ءمیں بے نظیر بھٹو کے دور میں ایرانی صدر معاہدے کی تجدید کے لیے پاکستان آئے تھے۔ اب دوسرے تیس سال مکمل ہونے پر تیسرے تیس سال کے معاہدے کی تجدید اور توثیق کے لیئے ابراہیم رئیسی حالت جنگ کے باوجود پاکستان آئے۔تیل ایران کی لائف لائن ہے۔ 46سال سے ایران عالمی پابندیوں کی زد میں ہے۔ اس نے اگر سروائیو کیا ہے تو پٹرولیم کے باعث کیا ہے۔ چین، بھارت اور دیگر کئی ممالک ایران سے  امریکی پابندیوں کے باوجود تیل درآمد کرتے ہیں۔ ایران سب کچھ برداشت کرتا ہے لیکن اپنی لائف لائن سے کسی صورت تہی نہیں ہونا چاہتا۔ مطلوب وڑائچ کی مذکورہ معلومات کتنی معتبر اور مستندہیں؟ ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ میں ایک ایک لفظ کسی بھی عالمی فورم پر حتیٰ کہ عدالت میں ثابت کر سکتا ہوں۔ اپنے متعدد کالموں میں وہ پاکستان کی عدلیہ کو پیشکش کر چکے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے انہیں عدالت میں طلب کیا جائے۔ یہ الگ موضوع اور ایشو ہے۔ ایرانی صدر نے واقعی اسی مقصد کے لیے پاکستان کا دورہ کیا ؟ یہ اوپن ڈیبیٹ ہے۔ اس پر معلومات رکھنے والے روشنی ڈال سکتے ہیں۔ 


پاکستان کی طرح عالمی سطح پر بھی معیشتیں کرونا کے بعد بحال نہیں ہو سکیں۔ یورپ اور سنٹرل ایشیاءکے ممالک میں بھی مہنگائی اور بے روزگاری اس کے باوجود موجود ہے کہ گھر کا ہر فرد جو جوانی میں قدم رکھتا ہے بر سرِ روزگار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک کمانے والا تو اوسطاً پانچ چھ کھانے والے ہوتے ہیں۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ یہ معاشی بد حالی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ 
چندا ماموں کو سلام ،پاکستان کا سیٹلائیٹ آئی کیوب قمر چین کے توسط سے چاند پر گیا۔ اس پر پاکستان کے اندر بھی کچھ لوگوں نے مذاق اڑایا۔ پاکستان ایٹم بم بنانے جیسا ناقابل یقین سنگ میل عبور کر سکتا ہے تو چاند پر سیٹلائیٹ پہنچانا چنداں مشکل نہیں تھا۔ مگر زمانہ کی رفتار ، مزاج، ماحول اور رویوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔ آپ دل و جان  سے کتنے دوست ہیں؟ پاکستان سٹیلائیٹ ضرور بنا لیتا اور شاید بنا بھی چکا ہو۔ قرض میں جکڑے پاکستان کی معیشت قرض پر ہی چل رہی ہے۔ ادھرآپ کا سٹیلائیٹ فضاؤں کا سینہ چیرتا خلاؤں میں داخل ہوتا ادھر قرض خواہ ادھم مچا دیتے۔ اسی کام اور مقصد کے لیے قرض لیا تھا؟  پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کا بھی پہلا سٹیلائیٹ  خلا میں چلا گیا کسی کو انگلی اٹھانے اور آنکھیں دکھانے کا موقع  نہیں ملا اور پاکستان عالم اسلام کا پہلا سیٹلائٹ چاند پر پہنچانے والا ملک بھی بن گیا۔

9مئی بس یہی کچھ ہے۔۔۔

یہ 1660ءکی بات ہے ۔۔۔برونائی کے تیرہویں سلطان محمد علی کے دور حکمرانی میں سلطان کے بیٹے بانگسو اور شہزادہ عبدالمبین کے بیٹے عالم کے درمیان مرغوں لڑانے پر تصادم ہوگیا۔۔۔ ہوا کچھ اس طرح شہزادہ بانگسو کے مرغے کو شکست ہوگئی ۔۔۔ شہزادہ عالم نے اس کا مذاق اڑایا جس پر مشتعل ہوکر بانگسو نے عالم کو ہلاک کردیا اور فرار ہوگیا۔۔۔  واقعے کی اطلاع ملتے ہی پرنس عبدالمبین اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا اور بانگسو کے والد سلطان محمد علی کو قتل کردیا اور تخت پر قبضہ کرلیا۔۔۔ اس نے خود کو برونائی کا چودھواں سلطان قرار دیا اور مقتول شہنشاہ کے حامیوں کو پرامن کرنے کے لئے اس کے پوتے محی الدین کو وزیراعظم مقرر کردیا۔
کچھ عرصے بعد محی الدین کے ساتھیوں نے اسے اکسایا کہ وہ اپنے دادا کے قتل کا بدلہ لے اور ساتھ ہی ان لوگوں نے ملک میں بدامنی پھیلانا شروع کردی۔۔۔ سلطان عبدالمبین نے کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنا دارالحکومت پولاؤ شرمن منتقل کرلیالیکن موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محی الدین نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور خود کو پندرہواں سلطان قرار دے دیا۔۔۔۔ محی الدین کے اقتدار پر قبضے کے بعد عبدالمبین نے اس کے خلاف لشکر کشی شروع کردی اور اس کی بغاوت کو کچلنے کے لئے متعدد حملے کئے۔ یہ تباہ کن کشمکش 13 سال بعد 1673ءمیں عبدالمبین کی ہلاکت کے ساتھ ختم ہوئی اور اس کے بعد محی الدین برونائی کا حاکم کل بن گیا۔
ایک اور واقعہ سنیں۔۔۔
یہ1823 کی بات ہے۔۔۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے عہد میں پشاور کے صوبیدار سردار محمد خان کے پاس ایک خوبصورت گھوڑی لیلیٰ موجود تھی جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی ۔۔۔جب مہاراجا رنجیت سنگھ تک اس گھوڑی کا چرچا پہنچا تو اس نے یہ گھوڑی حاصل کرنے کا پیغام بھیجا۔۔۔ سردار محمد خان کے انکار پر اس نے اپنے جرنیل سردار بدھ سنگھ سندھانوالہ کو گھوڑی چھین کر لانے کے لیے روانہ کیا۔۔۔ ایک خونریز معرکہ کے بعد، سردار بدھ سنگھ کو علم ہوا کہ یہ گھوڑی جنگ میں کام آچکی ہے۔۔۔۔ اس نے لاہور پہنچ کر یہ اطلاع رنجیت سنگھ کو پہنچائی تو پتا چلا کہ یہ اطلاع غلط ہے اور لیلیٰ زندہ ہے۔۔۔ اب رنجیت سنگھ نے اپنے شہزادے کھڑک سنگھ کی سرکردگی میں ایک اور لشکر پشاور روانہ کیا اور یار محمد خان کو معزول کر دینے کے احکام جاری کئے۔۔۔ یار محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو گھوڑی کو لے کر پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور اپنے بھائی سردار سلطان محمد خان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔۔۔ اسی دوران سید احمد شہید کا سکھوں اور انگریزوں سے جہاد شروع ہوگیا۔ ۔۔سکھوں کی فوج کے ایک جرنیل دینورا نے سید احمد شہیداور ان کے ساتھیوں کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ سلطان محمد اور یار محمد کو بھی شکست دے دی اور ان سے لیلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔۔ یہ گھوڑی لاہور پہنچائی گئی اور رنجیت سنگھ کی خدمت میں پیش کی گئی۔ مہاراجا نے اس کے ملنے کی بڑی خوشی منائی۔ اس کا بیان تھا کہ اس گھوڑی کے حصول میں اس کو ساٹھ لاکھ روپیہ اور بارہ ہزار جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔۔۔
نفسیاتی طور پر اگر ان دونوں واقعات کودیکھا جائے تویہ مرغے لڑانے یا گھوڑی حاصل کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئے۔۔۔یہ انا کی لڑائیاں تھیں، خود کو طاقتور،اعلیٰ،مقدس منوانے کی جنگیں تھیں۔۔۔یہ ایک تاریخ ہے کوئی بھی طاقتور،خود کو سب سے سپریم اورمقدس سمجھنے والاشخص ہویا ادارہ،وہ کسی کے بڑھتے ہوتے قد کو برداشت نہیں کرتا۔۔۔وہ دوسرے کی شہرت سے خائف رہتا ہے۔۔۔وہ خوددار اور آزاد سوچ رکھنے والے افراد کو پسند نہیں کرتا۔۔۔وہ صرف جی  سر،یس سر،اوکے سرسننے کا عادی ہوتا ہے،ناں کا لفظ انکی ڈکشنری میں نہیں ہوتا۔۔۔تاریخ بھری پڑی ہے،اسی بنیاد پر جنگیں ہوئیں،لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔۔۔کسی ایک شخص یاادارے کی تسکین کیلئے یا کسی ایک شخص یا ادارے کی نفرت میں ملک برباد ہوگئے،عوام رل گئے،روٹی کوترس گئے،نسلیں تباہ ہوگئیں۔۔۔لیکن طاقتور لوگ کبھی سبق حاصل نہیں کرتے، کیونکہ طاقت کا جنون انسان سے سوچ چھین لیتا ہے۔9مئی بھی  یہی کچھ  ہے،جتنی مرضی کہانیاں بنا لی جائیں،جتنی مرضی تحقیقات کرلی جائیں،تجزیئے،کالمز،کتابیں لکھیں جائیں،انکوائری،تحقیقات کرالی جائیں۔۔۔حرف آخریہی ہے کوئی بھی طاقتور،خود کو سب سے سپریم اورمقدس سمجھنے والاشخص ہویا ادارہ،وہ کسی کے بڑھتے ہوتے قد کو برداشت نہیں کرتا۔۔۔وہ دوسرے کی شہرت سے خائف رہتا ہے،9مئی بس یہی کچھ ہے۔۔۔

امریکی ایئرپورٹ پر مسافر کی پتلون سے سانپ برآمد

اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے۔یہ کون سی انوکھی خبر اور انہونا ماجرا  ہے۔صحافت کی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ کتے نے انسان کو کاٹ لیا یہ کوئی خبر نہیں اگر کوئی بندہ کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر بنتی ہے۔

اگر یہ کہا جاتا کہ مسافر کی پتلون سے ہاتھی برآمد ہوا ہے تو یہ انہونا واقعہ ہو سکتا تھا یہ حیران کن بات ہو سکتی تھی۔مسافر کی پتلون سے سانپ کا برآمد ہونا حیرانی نہیں پریشانی کی بات ہے کہ ایک مسافر اپنے ساتھ سانپوں والا ڈبہ لے گیا۔ یہ ڈبہ اس نے اپنی پتلون میں چھپا رکھا تھا۔ڈبہ بھی کوئی شوز والا باٹا سروس کا نہیں تھا۔یہ عینک کا کیس تھا۔جس میں اس نے سانپ کے  دو تین بچے رکھے ہوئے تھے۔واقعہ مسافر کے ہوائی جہاز میں داخل ہونے سے کچھ دیر قبل ہی پیش آیا۔

میامی کی ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے یہ واقعہ اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر شیئر کیا۔ پوسٹ میں دو چھوٹے سانپوں کی تصویر بھی شیئر کی گئی جو دھوپ کے چشمے کے بیگ سے برآمد ہوئے تھے۔ مسافر کو گرفتار کر لیا گیا۔اگر یہ جہاز میں سوار ہونے میں کامیاب ہو جاتا اور وہاں کسی طرح پتہ چلتا کہ اس کے پاس سانپوں کا بیگ ہے تو دیگر مسافروں کی کیا حالت ہوتی ۔جن افسروں نے یہ عینک کیس مسافر کو اپنے آفس میں لے جا کرکھولا اگر ان میں بڑے سانپ ہوتے تو ان پر کیا گزرتی ۔یہ مسافر کیا سپیرا تھا یا سانپ سمگل کر رہا تھا ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل یہ خبر آجائے کہ یہ سانپ نہیں بلکہ کینچوے  یا کنکھجورے تھے۔جس طرح کی اس خبر کی ہیڈ لائن دی گئی اس   سے تو لگتا ہے کہ مسافر کی پینٹ میں کہیں سے سانپ گھس گیا تھا جو تلاشی کے دوران پینٹ سے باہر آگیا۔اگر واقعتا ایسا ہوتا تو مسافر کی کیا حالت ہوتی ساتھ والے لوگوں کی اور عملے پر کیا گزرتی۔

آؤ مل کر چلیں۔ گورنر فیصل کریم کنڈی کی وزیراعلی کے پی کے کو پیشکش

پیپلز پارٹی نے فیصل کریم کنڈی کو میرٹ پر گورنر تعینات کیا ہے۔ پی پی پی میرٹ سے ہٹ کر فیصلے تو کرتی  نہیں۔ اسی میرٹ پر جہاں آرا وٹو، ندیم افضل چن اور قمرزمان کائرہ بھی پورا اترتے تھے ان کےنام تو پیپلز پارٹی کی گورنر پنجاب بنائے جانے کی فہرست میں شامل تھے مگر قرعہ سلیم حیدر کے حق میں نکلا ۔

ایک انار کھانے کو تین چار تیار،صوبےمیں ایک ہی گورنر لگنا تھا ۔ باقیوں نے اپنا شوق سکندری فوری طور پر کنڈی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہو کر پورا کر لیا ۔ چن اور کائرہ کی طرح فیصل کریم کنڈی بھی الیکشن ہار گئے تھے۔ اس کے بعد نئی صف بندی ہوئی نیا میرٹ بنا تو اس پر کنڈی پورا اترے۔ان کو اسی وزیراعلیٰ کے بالمقابل گورنر بنا دیا گیا جن سے ہارے تھے۔ان کے مابین تو" لازوال اور بے مثال "کوارڈینیشن ہوگی.گورنر کے حلف کی تقریب میں  وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور شریک نہیں ہوئے۔  کنڈی کی طرف سے اسی موقع پر تحریک انصاف کی حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا  اور کہا گیا کہ مل کے چلتے ہیں  لیکن ان کا ہاتھ حکومتی ترجمان بیرسٹر سیف  کی طرف سے یہ کہہ کر جھٹک دیا گیا کہ آپ تحریک انصاف کو گالیاں دینے کے انعام میں گورنر بنائے گنے ہیں۔

کنڈی کی طرح جو بھی  بڑے عہدوں پر آتا ہے شروع میں قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ اسی طرح کے چمکیلے سنہری بیانات اور کچھ تاریخی قسم کے اقدامات کے اعلانات بھی کیے جاتے ہیں۔ گورنر وزیراعظم ہاؤس ایوان صدر کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ خان صاحب نے تو گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کا اعلان کرنے کے بعد  کدال بھی اٹھا لی تھی مگر کورٹ درمیان میں حائل ہو گئی۔ ادھر اعلیٰ ایوانوں میں مقدر کا سکندر  قدم رکھتا  ہے ادھر ہجوم دلبراں جمع ہونے لگتا ہے ۔حاشیہ بردار نیاز مندی خوشامد کا ہمالیہ کھڑا کر کے مقتدر   کو  اس کے اوپر چڑھا دیتے ہیں جہاں سے اسے خبط عظمت میں مبتلا ہو کرچھ فٹے بھی بونے  بلکہ بھیڑ بکریاں نظر آتے ہیں۔

پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آئی کیوب کیو آج چاند کے مدار میں داخل ہوگا

پاکستان کا یہ سیٹلائٹ چین کے تعاون سے چاند تک گیا ہے۔یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔جسے ہمارے سائنس دانوں نے ممکن بنایا۔اس پر ہر پاکستانی اپنا سر فخر سے بلند کر سکتا ہے مگر جن بدخواہوں کو ملک میں کچھ بھی اچھا نظر نہیں آتا ان کی جانب سے پاکستان کی  اس عظیم کامیابی کو بھی ناکامی سے تعبیر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

 کچھ یوتھیے جیالے پانامیئے بھی بھڑاس نکال رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو گھر کی مرغی کو دال برابر سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔تنقید کی جا رہی ہے کہ اس میں پاکستانی سائنس دانوں کا کیا کمال ہے۔ یہ تو  چین کے تعاون سے اوپر پہنچایا گیا۔یہ نادان لوگ ہیں اور ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک خاتون نے اپنے میاں سے کہا کہ میں نے صبح دیکھا ایک نیک بندہ اڑ رہا تھا۔تم بھی بڑی پوجا پاٹ  بڑی عبادت کرتے ہو اس کا کیا فائدہ ہے۔اس پر مرد دانا نے  کہا کہ وہ میں ہی تھا۔ اس پر خاتون ترنت بولی تبھی میں کہوں کہ ٹیڑھا ٹیڑھا کیوں اڑ رہا ہے۔

اسی طرح ایک خاتون نے اپنے میاں کو کہا کہ آپ بھی اللہ توبہ کیا کریں۔اس نے باقاعدگی سے مسجد جانا شروع کیا تو یہی خاتون اپنی پڑوسن کو کہنے لگی مؤاحوروں کے چکر میں عبادتیں کررہا ہے۔ گھر کا جوگی جوگڑا، پرایا جوگی سعد۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنا سیٹلائٹ بھی بنا سکتا ہے۔ اگر ہمارے سائنسدان ایٹم بنا سکتے ہیں تو سیٹلائٹ بنا کر چاند تک پہنچانا  کہیں زیادہ آسان ہے۔لیکن سیٹلائٹ کا اب چاند تک پہنچا دینا ایٹم بم بنانے سے کم  کارنامہ نہیں ہے۔پاکستان اگر اپنا سیٹلائٹ بنا کے چاند تک پہنچا دیتا تو دوست دشمن سب کہتے کہ یہ جو قرضہ لیاگیاہے یہ ان مقاصد کے لیے تھا؟۔ اب پاکستان کا سیٹلائٹ بھی چاند پر چلا گیا پاکستان پر تنقید بھی نہیں ہو رہی یہی بہترین حکمت عملی ہے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کس ملک کے توسط سے چاند پر پہنچایا گیا ہے۔ویسے حکومت اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے کہیں اب بجلی کے بلوں میں مون ایڈجسٹمنٹ چارجز نہ ڈال دے۔

گھر کا کرایہ 70 ہزار سے بڑھا کر دو لاکھ، خیبر پختونخواکے وزراء کی مراعات میں اضافے کی منظوری

سیاسی پارٹیوں میں اختلافات بڑھتے بڑھتے انتہا تک پہنچ جاتے ہیں۔ دست و گریبان ہونے تک کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ کبھی تو ایک دوسرے کے بدترین دشمن لگنے لگ جاتے ہیں۔  ایک دوسرے کی طرف ایسے دیکھتے ہیں کہ کچا چبا جائیں گے مگر جب مراعات کی بات آتی ہے تو سبھی ایک ہو جاتے ہیں، یکجا ہو جاتے ہیں، یک جان ہو جاتے ہیں، یکتا ہو جاتے ہیں۔

سگے تو کیا سگوں سے بڑھ کر بھائی بہن بن جاتے ہیں۔اس دربار اور مزار پر نیاز لینے کے لیے سب کا دامن ایک طرح سے پھیلا ہوتا ہے ۔ادھر تنخواہوں میں مراعات میں اضافے کی قرارداد پیش ہوتی ہے ادھر جوش جذبے سے اسے بغیر کسی بحث کے متفقہ طور پر منظور کر لیا جاتا ہے۔علی امین گنڈاپور جو صوبے کی غربت کا واویلا کرتے ہوئے مرکز سے اپنے حصے کی وصولی کے لیے لاٹھی اٹھائے نظر آتے ہیں، صوبے کی ترقی کے لیے وسائل کی کمی کا ماتم کرتے ہیں مگر آپ نے وزرا کے گھروں کا کرایہ ستر ہزار سے دو لاکھ کرنے کی کابینہ سے منظوری دلوا دی ہے.

اس سے استفادہ یہی خلق خداکرے گی جس نے منظوری دی ہے۔معاملہ اسمبلی میں جائے گا تو اسمبلی والے کہیں گے ہمیں بھی کچھ لگاؤ، ان کی مراعات میں بھی ایسا ہی اضافہ ہوگا تو بل پٹاخ پٹاخ منظور کیوں نہیں ہوگا۔کابینہ کے اجلاس کے دوران جب بیک جنبشِ ابرو یکمشت دو لاکھ روپے کرائے کی مد میں ادائیگی کی منظوری دی گئی تو وزراء کی طرف سے اسی ہال کے کونے میں خوشی سے جھومنا ، خٹک ڈانس کرنا اور گنگنانا رقص میں ہے سارا جہاں، سمجھ میں آتا ہے۔

برطانیہ میں5ارب روپے کی دیسی شادی اوردولت کی فاحشانہ نمائش

پیسہ بولتا ہے۔ شادیوں پر تو دھمالیں ڈال کے بولتا ہے۔ اور ہر کہیں بولتا ہے۔ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور افریقہ جیسے پسماندہ ممالک تو کیا، عرب اور یورپ میں بھی بولتا ہے۔ امبانی کا تیس ہزار ایکڑ پر ''امبوں" کا باغ ہے۔ان کے بیٹے کی شادی جولائی میں ہونی ہے مگر تقریبات ایک سال قبل شروع کر دی گئیں، پچاس ہزار مہمانوں کی سیوا آم کے باغ میں کی گئی۔

ہمارے ہاں دُلہا کبھی گھوڑے پر سوار ہو کر بارات کی سربراہی کرتا تھا اب گاڑی میں ہمراہی کرتا ہے۔ عموماً کرائے کی گاڑی ہوتی ہے۔ کئی تو شیروانی بھی کرائے پر لے کر پہنتے ہیں۔ دلہن کا لہنگا مہنگا ہوتا ہے یہ بھی کرائے پر دستیاب ہے۔ برطانیہ میں ایک دو روز قبل 5ارب روپے میں دیسی شادی ہوئی۔ 
یہ شادی فرانس کے عالیشان ہوٹل گرینڈ ایلی میں  ارب پتی عمر کامانی کی معروف ماڈل نادہ ایڈیلی سے پسند کی شادی ہے۔شادی میں دنیا کی معروف شخصیات بھی شریک تھیں۔ 4 روز تک جاری رہنے والی شادی کی تقریبات میں سےایک تقریب دیسی طریقہ کار کے تحت تھی جس میں دلہے نے شیروانی اور دلہن نےسلور رنگ کا لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا۔جبکہ دوسرے دن کی تقریبات میں جوڑے نے مغربی طور طریقے کے تحت اس خاص دن کو مزید یادگار بنایا۔ تقریبات پر 20 ملین یورو کا خرچہ آیا ہے جو کہ پاکستانی 5 ارب سے زائد کی رقم بنتی ہے۔

 یہ تو بدیس میں دیسی شادی کی روداد تھی۔ کچھ عرصہ قبل انڈیا میں ایک شادی ہوئی اس پر بھی اتفاق سے5ارب روپے خرچہ آیا مگر یہ بھارتی روپوں میں تھا۔ اس شادی کو عجیب نام دیا گیا۔کاروباری شخصیت اور سابق وزیر جی جاناردھن ریڈی کی بیٹی برہمنی کی شادی پر پانچ ارب انڈین روپے کا خرچہ آیا ہے۔سونے کی پلیٹوں والے دعوت نامے اور بالی وڈ کے ستاروں کی پرفارمنس سے مزین یہ شادی خاصی متنازعہ ہو گئی۔ ناقدین نے اسے 'دولت کی فاحشانہ نمائش' قرار دیا تھا۔یہ شادی انڈین حکومت کے اس اعلان کے چند ہی روز بعد منعقد ہو ئی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ ختم کر رہی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بھکاریوں کو جیل میں رکھنے سے انکار کر دیا۔

ہر جیل کا نام اور سٹیٹس ہوتا ہے۔ کچھ جیلیں بھی کسی حوالے سے مشہور ہیں۔ رانا ثناءاللہ نے عمران خان کو مچھ جیل بھجوانے کی بھی دھمکی لگائی تھی۔ اڈیالہ جیل میں نامور سیاستدان قید کاٹ چکے ہیں۔ آج کل عمران خان، شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی وہاں بند ہیں۔

بشریٰ بی بی بھی اسی جیل میں چند روز قید رہیں۔ مریم نواز اور میاں نواز شریف کو بھی زرداری صاحب کی طرح اڈیالہ جیل میں شب و روز گزارنا پڑے تھے۔ بھٹو سمیت اور بھی بہت سے نامی گرامی اڈیالہ جیل یاترا کر چکے ہیں۔ اس تاریخی جیل میں بھکاری بھی رہیں؟۔ ان کو بھی تاریخی حیثیت مل جائے؟ ان بھکاریوں میں خواجہ سرا ،اندھے، ٹانگوں بازوؤں سے اپاہج بھی ہوتے ہیں۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ اسی محاورے کے مصداق سپرنٹنڈنٹ نے سمجھ لیا ہوگا کہ یہ منگتے جیل کے عملے سے بھی مانگیں گے۔

”ہم لیں مانگ کے، تمہیں دیں ٹانگ کے“۔ جیل میں ملاقات کے لیے جانے والا اور قید کاٹ کر رہا ہونے والا”سُکا“ واپس آسکتا ہے؟ کچھ نہ کچھ لگانا پڑتا ہے۔خان صاحب کی آدھی دیسی مرغیاں تو عملہ کھا جاتا ہوگا۔ خبر کے مطابق جیلر نے کہا ہے کہ جیل میں قیدیوں کی گنجائش 2174 ہےجبکہ  سات ہزار سمائے ہوئے ہیں  لہٰذا اسلام آباد انتظامیہ مزید بھکاری نہ بھجوائے۔ بھکاریوں کو قیدکیوں کرناہے۔ ان کے لیے پناہ گاہیں نہیں بنا سکتے تو جنگلوں میں چھوڑ آئیں۔ یا جیلوں کا جال بچھا دیں۔

آئندہ کوئی انڈسٹریل اسٹیٹ زرعی زمین پر نہیں بنے گی:چودھری شافع حسین

اگر کسی نے انڈسٹریل اسٹیٹ وزیر صنعت و تجارت شافع چودھری سے پوچھ کر بنانی توہرگزہرگز نہیں بنے گی۔ شافع چوہدری نے وزیر بننے کے لیے بڑی محنت کی۔ آج اس سے بھی زیادہ محنت اپنی وزارت کوبچانے اورکامیابی سے چلانے کے لیے کر رہے ہیں۔وزارت چل رہی ہے، دوڑ رہی ہے یا رینگ رہی ہے؟۔ کوئی اس شعبے کاماہر ہی بتا سکتا ہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی کہا جاتا ہے زرعی اراضی پر نہیں بنیں گی مگر بن رہی ہیں۔ اونچے اونچے پلازے بن رہے ہیں جن میں پارکنگ ضرورت کے مطابق رکھنے کا قانون موجود ہے۔ یہ شرط اپنی دو تین گاڑیوں کی پارکنگ پلیس دکھا کر پوری کر لی جاتی ہے۔  اس حوالے سے منظوری دینے والے افسر کی جیب اور معدے کا سائز لیا جاتا ہے۔ بنکوں سے قرض کے لیے درخواست لے کے جانے والوں کو دو درخواستیں افسر کی طرف سے دی جاتی ہیں ایک قرض لینے اور دوسری قرض معاف کرانے کی ۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں کچن گارڈننگ کے لیے جگہ چھوڑنا لازم ہے مگر اس ضابطے کی پابندی کوئی کون کرتا ہے۔ چودھری صاحب نے ڈیڈ لائن نہیں دی کہ ان کے احکامات کا اطلاق کب سے ہوگا۔ اویس لغاری نے23 اپریل بجلی چوری کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اس تاریخ تک چوری کی اجازت تھی؟ اس کے بعد بھی چوری جاری ہے۔ کیا ڈیڈ لائن بڑھا دی گئی یافری ہینڈ دے دیا گیا۔