سوچنے پر کوئی پابندی نہیں

تحریر: ستارچوہدری

| شائع |

امیر المومنین سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا ۔۔۔ ہر آدمی کا اپنا سچ ہوتا ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار۔۔۔ہرشخص سچ کو پسند کرتا ہے مگر وہ سچ جو اس کی مرضی کا ہو۔۔۔  ہمارے سپہ سالارفرما رہے تھے۔۔۔ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے،ہمیں  اپنی آئینی  حدودمعلوم ہیں۔
کیا  سپہ سالار کاخطاب سننے والے  کیڈٹس دل میں مسکرا  ئےنہیں  ہونگے ؟۔۔۔ سوچنا تو پڑتا ہے۔۔
آگے چلتے ہیں۔۔۔ وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے

۔۔۔ ہمارا پاور سیکٹر تباہ ہو چُکا ہے۔۔۔ ہماری ہاں بجلی کی جتنی چوری ہوتی ہے شائد کہیں نہ ہو۔۔۔ ہمارے پاس فقط اشرافیہ کا خیال کیا جاتا ہے اور کسی اور کا نہیں۔۔۔۔ ہم اُتنا ٹیکس بھی نہیں جمع کر پاتے اور اُس کا چار گُنا زیادہ ہمارے خرچے ہیں۔۔۔۔ ہم شائد کبھی اس بُحران سے نہیں نکل پائیں۔۔۔۔ ہمارا قرضہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ ایک موت کا شکنجہ ہے۔
کیا  عالمی اقتصادی فورم  میں  شہباز شریف کاخطاب سننے والے عالمی رہنما دل میں مسکرا ئے نہیں ہونگے؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔۔
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ن  لیگ کے رکن اسمبلی حنیف عباسی کی اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منہ ماری ہوگئی،عباسی صاحب فرمانے لگے ’’ میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں۔۔۔’’آپ نے گندم سکینڈل میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے‘‘۔۔۔ آگے سے کاکڑ صاحب بولے۔۔۔’’ میں فارم47پر بول اٹھا تو پوری ن لیگ منہ چھپاتی پھرے گی ‘‘۔۔۔
کیا دونوں رہنماؤں کا سچ سن کر ہوٹل میں بیٹھے لوگ دل میں  مسکرائے نہیں ہونگے؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔
سول خفیہ ادارے کی رپورٹ۔۔۔ بلوچستان کے پانچ اضلاع کے چھ زمینی اور سمندری راستوں سے یومیہ 89 لاکھ  لیٹر ایرانی تیل پاکستان سمگل کیا جارہا ہے۔۔۔ سمگلنگ کیلئے ضلع چاغی کا راجے، ضلع واشک کا جودر، پنجگور کا جیرک اور چیدگی اور ضلع کیچ (تربت) میں عبدوئی کا زمینی راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔ گوادر میں جیونی کے قریب کنٹانی کا واحد سمندری راستہ بھی  شامل ہے۔۔ سمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں منتقل کیا جاتا ہے۔۔۔تیل منتقلی کیلئے پی ایس او کے کنٹینرز بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔۔۔ سینکڑوں آئل ٹینکر لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لے کر بلوچستان کے علاقے اوتھل اور لسبیلہ سے کراچی اور سندھ  لیکر جاتے ہیں۔۔۔سمگلنگ میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان،سابق وزرا سمیت105 بڑے سمگلر اور100 اہلکار شامل ہیں۔۔۔وزیراعظم نے رپورٹ ملنے پر کہا ہے سمگلنگ کا کاروبار بند کرنا ہوا ہوگا اور ملوث افرادکیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔۔۔۔
کیا وزیراعظم کا حکم سن کر سرحدوں کی حفاظت کرنے والے دل میں مسکرائے نہیں ہونگے ؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔
جونہی ملک کے کسی حصے میں دہشگردی ہوتی ہے،حکومت کی طرف ایک ہی  ’’ رٹیا    رٹایا‘‘بیان آتا ہے،دہشگردوں کو ایسا سبق سکھائیں گے،ان کی نسلیں یاد رکھیں گی،ا نکی جڑیں کاٹ دینگے۔۔۔ان کا نام ونشان مٹا دینگے۔۔۔شہدا کا خون رائیگاں نہیں جانےدینگے۔۔۔خون کے ایک ایک قطرے کاحساب لیا جائے گا۔۔۔
کیا اعلیٰ حکام کے ان بیانات کو سن کو دہشتگرد مسکراتے نہیں ہونگے ؟سوچنا تو پڑتا ہے۔
زرداری صاحب جب سے صدر بنے،خاموش ہی بیٹھے ہوئے ہیں،پہلی بار’’خواب خرگوشی‘‘ سے جاگے اور کراچی پہنچ گئے۔۔۔اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کرلیا۔۔۔ سندھ میں  قیام امن   کیلئے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔۔۔ڈاکوؤں  کیخلاف آپریشن کرنے پر بھی غور کیاگیا۔۔۔زرداری صاحب  مزید بولے،سندھ میں زمینوں پر قبضےکرنیوالوں کوبرداشت نہیں کروں گا۔۔۔
کیا زرداری کا حکم سنتے ہوئے کچے کے ڈاکو مسکرائے نہیں ہونگے ؟ سوچنا تو پڑتا ہے۔
نوازشریف چین کا دورہ کرنے گئے،ہمارے  درباری دانشور،اینکرز،کالم نگار فرما رہے تھے،میاں صاحب نے پاکستانی معیشت کا بیڑہ اٹھا لیا ہے،بس اب پاکستان کے سنہری دن لوٹ آئینگے،دودھ اور شہید کی نہریں  بہنے لگیں گی۔۔۔خوشحالی کا دور ہوگا۔۔۔غریب،غریب نہیں رہیں گے۔۔۔دیگر سیاسی جماعتو ں کا ملک میں صفایا ہوجائے گا۔۔۔مریم نواز اگلی بار پکی وزیراعظم۔
کیا نواز شریف اپنے نواسے جنید کےساتھ بیجنگ میں سٹیل ملز کا دورہ کرتے ہوئے دانشوروں کے تجزیئے سن کر مسکرائے نہیں ہونگے؟سوچنا تو پڑتا ہے۔
مریم نواز انتہائی سادہ خاتون ہیں،800 والا سوٹ پہن لیتی ہیں۔۔۔ تین ماہ کے قلیل عرصہ میں پنجاب میں تاریخی کام کرڈالے۔۔۔مریم کے ڈکشنری میں ’’ ناں ‘‘ کا لفظ ہی نہیں، وہ ایک ذہین ،محنتی اور دلیر خاتون ہیں۔۔۔کتابیں پڑھنے کا انہیں بہت شوق ہے۔۔۔
ویسے جب عظمیٰ بخاری ’’شامیانے  رفو‘‘ کرتی ہونگی ،کیا مریم نواز سن کو مسکراتی نہیں ہونگی؟سوچنا تو پڑتا ہے۔
آپ بھی سوچاکریں،سوچنے پر کوئی پابندی نہیں۔۔۔